Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے اِن کیمرہ سماعت کی بابر اعوان کی استدعا مسترد کر دی۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ 'ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں. کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔  یہ بھی بتائیں کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ سے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں۔
بدھ کو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب اسمبلی کا معاملہ اٹھایا۔
انھوں نے کہا کہ 'ڈپٹی سپیکر نے آج شام اجلاس بلایا تھا. لاہور میں حالات کشیدہ ہیں۔ اسمبلی کا عملہ ڈپٹی سپیکر کا حکم نہیں مان رہا۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ 'آج بہت اہم کیس سن رہے ہیں۔ کوشش ہے کہ مقدمہ جلدی نمٹایا جائے۔ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی۔ سب کو سنیں گے یک طرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟'

تحریک انصاف کے سربراہ کے وکیل بابر اعوان کے دلائل

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'ایم کیو ایم، تحریک لبیک، پی ٹی ایم، جماعت اسلامی کیس میں فریق نہیں. راہ حق پارٹی اور باپ بھی پارلیمان کا حصہ ہیں لیکن کیس میں فریق نہیں۔'
بابر اعوان نے کہا کہ درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 95 اور 69 کی تشریح کی استدعا کی ہے تاہم آرٹیکل 63 اے پر کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ان کا دعوی ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت جو مرکز، پنجاب، آزاد جموں کشمیر اور جی بی میں اکثریتی پارٹی ہے۔ ن لیگ کے صدر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔'

فیصلے سے پہلے سازش کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا سپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر حقائق پر جا سکے۔ کیا ایسا کوئی مواد موجود ہے؟ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کب ہوئی؟ ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے۔ ہم متنازع باتوں پر نہیں جانا چاہتے۔ ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔'

بابر اعوان نے عدالت نے ان کیمرا سماعت کی استدعا کی۔ فائل فوٹو: سکرین گریب

چیف جسٹس نے کہا کہ 'ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں. کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔  یہ بھی بتائیں کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ سے دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں۔ سپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر کریں۔ نیشنل سیکورٹی کونسل اجلاس کے منٹس کہاں ہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ نے نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا۔ عدالت کے سامنے حقائق کی بات کریں۔ 

عدالت کا بابر اعوان کی درخواست پر اِن کیمرہ سماعت سے انکار 

بابر اعوان نے کہا کہ سائفر سے نوٹس بنا کر فارن منسٹری کابینہ میٹنگ کو بریف کرتی ہے۔ میں ایک بریف بنا کر لایا ہوں جسے ان کیمرا سماعت میں دکھا سکتا ہوں۔ 
اس پر اٹارنی جنرل نے مداخلت کی اور کہا کہ 'فارن پالیسی کا معاملہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک سیاسی جماعت کی جانب سے نہ آئے۔ یہ سپیکر کی رولنگ سے پڑھ دیں اس میں جو کچھ ہے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی درست ہے. ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے.' 
تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ 'مراسلے میں چار چیزیں سامنے آئیں. آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت زیادہ تفصیلات نہیں دے سکتا۔ فارن آفس نے مراسلہ دیکھ کر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ساتھ میٹنگ کی۔ کابینہ کے اجلاس میں متعلقہ ڈی جی نے مراسلے پر بریفننگ دی تھی۔' 
چیف جسٹس نے پوچھا کہ 'وفاقی کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی تھی؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاؤں گا۔ کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ دفتر خارجہ نے جو بریفننگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ 'فی الحال خط نہیں مانگ رہے. عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں.' 
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 'کوئی شبہ نہیں ہر شہری کو ریاست کا وفادار ہونا چاہیے. جن پر الزام لگایا گیا ان کےخلاف کیا ایکشن لیا گیا۔' 
بابر اعوان نے جواب دیا کہ 'حکومت نے ان کے خلاف کوئی اہکشن نہیں لیا۔ تحریک انصاف نے اپنے ارکان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ پاکستان سب سے پہلے ہے۔ وزیر اعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔ میں بھی احتیاط برت رہا ہو۔ سپیکر کا معاملہ ہے تو پھر پہلے انکے وکیل کو بات کرنے دیں۔' 
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 'اگر عمران خان کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے. بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔ وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لیے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے۔ میمو کیس ابھی بھی زیر التواء ہے۔ حقائق متنازع ہوں تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔' 

تحریک عدم اعتماد کو صرف پیش ہونے سے قبل نمٹایا جا سکتا ہے: جسٹس اعجاز الاحسن

بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'آرٹیکل 94 کے تحت صدر وزیراعظم کو نئی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں. کہاں لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جا سکتی؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ سپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا؟ اگر کہیں لکھا نہیں ہوا تو اسے عدالت پڑھ بھی نہیں سکتی۔' 
انھوں نے کہا کہ 'تحریک عدم اعتماد نمٹانے تک اجلاس موخر نہیں ہو سکتا۔'
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹانا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو نمٹایا پیش کرنے کی منظوری سے پہلے جا سکتا ہے۔ پارلیمانی رولز کو آرٹیکل 95 کے ساتھ ملا کر ہی پڑھا جا سکتا ہے علیحدہ کر کے نہیں۔' 
چیف جسٹس نے بابر اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلا نقطہ آپ نے مزے کا بتایا۔لکھ لینے دیں۔ آپ کہہ رہے ہیں ووٹنگ کروانے کے علاوہ بھی تحریک عدم اعتماد نمٹائی جا سکتی ہے۔ 
عدالت نے استفسار کیا کہ 'سیاست میں ریمیڈی کیا ہوتی ہے؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ سیاست میں ریمیڈی عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔ پی پی پی کے چیئرمین نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ الیکشن کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ انڈیا اور بنگلہ دیش نے ای وی ایم کا راستہ نکالا، مگر ہم نہیں مانتے۔ اگر یہاں سے راستہ بننا ہے تو میں سعادت سمجھتا ہوں کہ اس تاریخ کا حصہ بنوں۔' 
 
 بابر اعوان نے کہا کہ 'ڈیڈلاک روکنے کے لیے آپ نے از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی ماورائے آئین کام نہیں ہو گا. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔ وہ فیصلہ کریں گے جو عوام کے مفاد اور سب پر ماننا لازم ہوگا۔ 

عدالت سپیکر رولنگ کا جائزہ نہیں لے سکتی: بیرسٹر علی ظفر

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے دلائل مکمل ہوئے تو صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل شروع کرتے ہی آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‏صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ اس معاملے کا حل نئے الیکشن ہی ہیں۔ ‏ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے دلائل کا آغاز کروں گا۔ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے۔ آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ 
علی ظفر نے موقف اپنایا کہ 'اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی. عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی۔ اس کیس میں سپیکر کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے۔ عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا۔ 
ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے۔ سپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے۔'
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 'کیا غیر آئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا۔ ایوان سپیکر سے مطمئن نہ ہو تو عدم اعتماد کر سکتا ہے۔ سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو سپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا۔ عدالت کو سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں۔'
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ 'کیا وزیراعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 'اگر اسمبلی تحلیل کی ایڈوائس رولنگ کے نتیجہ میں ہے تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا.' 
جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ 'سپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 'سپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 'آپ کے مطابق اس کیس میں فورم سپیکر کو ہٹانا تھا۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلہ دے گی تو پارلیمان کا ہر عمل عدالت میں آ جائے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمان اگر ایسا فیصلہ دے جس کے اثرات باہر ہوں تو پھر کیا کہتے ہیں؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ 'عدالت پارلیمان کے فیصلے کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہر شہری آئین کا پابند ہے۔ کیا سپیکر آئین کے پابند نہیں؟ 
چیف جسٹس نے کہا کہ 'درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے. درخواست گزار کہتے ہیں آئین کی خلاف ورزی پر پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے۔'
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 'چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا تھا. ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ ایوان کے آئینی انتخاب کو بھی استحقاق حاصل ہے۔ عدالت قرار دے کہ تحریک عدم اعتماد پارلیمانی کارروائی نہیں تو ہی جائزہ لے سکتی ہے۔' 
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ 'ووٹ کم ہوں اور سپیکر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ پارلیمانی مسائل تو ہو سکتے ہیں لیکن عدالت پارلیمنٹ پر مانیٹر نہیں بن سکتی۔ پارلیمنٹ کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔'
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ 'کیا وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہوتا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 'آرٹیکل 91 کے تحت وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہے.' 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ سپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے. ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟'
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 'الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ 
چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'یہ کیس ارٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے۔ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں۔' 
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا آئین شکنی کو بھی پارلیمانی تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک اور منحرف ارکان سے متعلق کارروائی کا طریقہ کار آئین میں ہے۔ آپ کی دلیل کے مطابق پارلیمان کی اکثریت ایک طرف اور سپیکر کی رولنگ دوسری طرف ہے۔ وزیراعظم اکثریت کھونے کے بعد بھی کیا وزیراعظم رہ سکتے ہیں؟ 
انھوں نے مزید استفسار کیا کہ 'کیا صدر مملکت وزیراعظم سے اسمبلی تحلیل کرنے کی وجوہات پوچھ سکتے ہیں. علی ظفر نے جواب دیا کہ 'صدر وزیراعظم کی سفارش کے پابند ہیں۔ اسمبلی تحلیل کی سفارش میں وجوہات بتانا ضروری نہیں۔' 
چیف جسٹس نے کہا کہ 'آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی۔ ‏اگر ایسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہو۔سکتے ہیں۔ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی۔ جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔ ہماری کوشش ہے معاملہ کو جلد مکمل کیا جائے۔ 

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی: چیف جسٹس

صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سولہویں صدی میں ججز کو پارلیمانی کارروائی میں دخل اندازی پر گرفتار کیا گیا۔ پارلیمان کو اپنے مسائل خود حل کرنے دینا چاہئیں۔ عدالت کو مداخلت کے بجائے معاملہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ این آر او کیس میں وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا گیا۔ خط نہ لکھنے پر سپیکر کے پاس ریفرنس آیا جو انہوں نے خارج کر دیا۔ عدالت نے یہ قرار دیا کہ سپیکر کا کام فیصلے پر عمل کرنا تھا۔ سپیکر کا جو کام پارلیمانی کارروائی نہیں صرف اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا رستہ کھول دیا۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت تمام وکلا کو آج ہی سننا چاہتی ہے جس پر ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے استدعا کی کہ ان کا روزہ ہے، کل دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے زیادہ دلائل قانونی نکات پر ہوں گے اور وہ بھی کل اپنی بات مکمل کر لیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ 'جو مسائل پارلیمان خود حل نہ کرسکے تو کیا ہوگا؟'
بیرسٹر علی ظفر نے جواب میں بتایا کہ 'کسی بھی رکن اسمبلی کی اہلیت کا جائزہ عدالت لے سکتی ہےپارلیمان کی کارروائی میں مداخلت کی حد کی تشریح عدالت نے کرنی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہے روزمرہ کا عدالتی کام متاثر نہ ہو۔ جمعات کو صبح ساڑھے نو بجے سماعت شروع کریں گے تاکہ نمٹا سکیں۔

پنجاب میں عوام کے پاس جانے کی آئیڈیل صورت حال ہے: چیف جسٹس

ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کی توجہ پنجاب اسمبلی کی صورت حال کی جانب دلائی اور بتایا کہ وہاں اجلاس منعقد نہیں ہونے دیا جا رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو آئینی عہدیدار اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر چاہیں تو اجلاس باغ جناح میں بھی بلا سکتے ہیں۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 'پنجاب میں حکومت کے پاس اکثریت نہیں اس لیے وزیراعلیٰ کا الیکشن نہیں ہونے دیا جا رہا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے حکم میں مداخلت کر سکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جلد بازی میں پنجاب اسمبلی کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دے سکتے۔ پنجاب میں آئیڈیل حالات ہیں کہ عوام سے رجوع کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کا کنڈکٹ بہت اعلیٰ ہے۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ’کل پنجاب کے حوالے سے درخواست کا جائزہ لیں گے کہ ہم سنیں گے یا ہائی کورٹ سنے گی۔‘
کیس کی سماعت جمعرات کی صبح 9:30 تک ملتوی کر دی گئی۔ 

شیئر: