Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے: تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟

پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ’پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھ کر آگے کا سوچنا چاہیے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے حکم کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا مشورہ دیا ہے۔
بظاہر نمبر گیم میں اپوزیشن کی واضح برتری کے بعد پی ٹی آئی کو ووٹنگ میں جیت کے امکانات کم نظر آتے ہیں، اس لیے وہ اب بھی کسی ’سرپرائز‘ پر مشتمل آپشنز پر غور کررہی ہے۔
ان آپشنز میں سے ایک قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے ہیں۔ اس آپشن کا مشورہ دینے والوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد نئی حکومت کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا اور وہ جلد الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے گی۔
تاہم آئینی ماہرین کے مطابق استعفوں کے باجود نئی حکومت کے قائم ہونے میں رکاوٹ نہیں ہوگی، البتہ اسے اخلاقی اور قانونی جواز کے حوالے سے مشکلات ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے جمعے کو منعقد ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں زیادہ تر ارکان کی رائے اجتماعی استعفوں کے خلاف تھی۔

اجتماعی استعفوں سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا؟

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’اجتماعی استعفوں سے پی ٹی آئی کو زیادہ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوسکتا ہے۔‘
’اگر یہ استعفے دے بھی دیں تو پارلیمنٹ چل سکتی ہے اور نئی حکومت ضمنی الیکشن کا اعلان کر کے نظام چلا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے لیے وقت آگیا ہے کہ اب صرف سیاست کا نہ سوچیں ملک کا بھی سوچیں۔ اگر عدم استحکام پھیلایا تو ان کو بھی نقصان ہوگا۔ ملک کو بھی معاشی نقصان ہوگا۔‘

رسول بخش رئیس کے مطابق ’اگر عمران خان نے عدم استحکام پیدا کیا تو یہ ان کی سیاسی ناپختگی ہوگی‘ (فائل فوٹو: اے پی)

پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ’پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھ کر آگے کا سوچنا چاہیے۔‘
’اینٹی امریکہ بیانیے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں اینٹی امریکہ انقلاب نہیں آسکتا کیونکہ یہاں سارا نظام امریکہ پر منحصر ہے جس میں بیوروکریسی، بزنس، تذویراتی مفاد اور معاشی ادارے امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عمران خان نے عدم استحکام پیدا کیا تو یہ ان کی سیاسی ناپختگی ہوگی۔‘

مستقبل کی اہم تعیناتیاں

یاد رہے کہ حکومت نے آئین کے مطابق چیئرمین نیب، نگراں وزیراعظم سمیت چند اہم تعیناتیاں اپوزیشن کے مشورے سے کرنا ہوتی ہیں۔ اگر اجتماعی استعفے دے دیے جائیں تو ایوان میں موجود پی ٹی آئی کا منحرف دھڑا اپنا گروپ بنا کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ سکتا ہے اور پی ٹی آئی کو مکمل طور پر مشاورت کے عمل سے باہر کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ارشار عارف کے مطابق ’اجتماعی استعفے دینا پی ٹی آئی کے لیے احمقانہ پالیسی ہوگی اور یہ اپوزیشن کو واک اوور دینے کے مترادف ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سارے ایم این ایز استعفوں پر راضی بھی نہیں ہوں گے کیونکہ کسی ممبر کے لیے الیکشن میں حصہ لینا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جب اس کی جماعت اپوزیشن میں ہو اور حکومتی مشینری اس کے خلاف استعمال ہونے کا خدشہ ہو۔‘
’اس لیے اگر عمران خان نے ایسا فیصلہ کیا تو خدشہ ہے کہ مزید ارکان منحرف ہوجائیں گے اور ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑے گی۔‘

 شیخ رشید احمد نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا مشورہ دیا ہے (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

ارشاد عارف کے مطابق ’حکومت ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کرسکتی ہے اور پھر ضمنی انتخابات کی نوبت آنے سے پہلے ہی چند ماہ میں اسمبلیاں توڑ سکتی ہے۔ ایسے میں استعفیٰ دینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

کیا الیکشن کمیشن اتنے حلقوں میں ضمنی الیکشن کروا سکتا ہے؟

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اجتماعی استعفوں کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن 100 کے قریب حلقوں میں ضمنی انتخابات کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن مرحلہ وار گروپوں کی شکل میں 50، 60 حلقوں میں ضمنی الیکشن کروا سکتا ہے۔‘
’اس حوالے سے اس کے پاس فنڈز اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اسے اضافی گرانٹ بھی مل سکتی ہے کیونکہ اسے وسائل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کی نوبت مشکل ہے کہ آئے کیونکہ اپوزیشن وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد اپنا سپیکر لائے گی اور نیا سپیکر استعفوں کو قبول کرنے کے عمل کو طول دے سکتا ہے جیسا کہ 2014 میں ایاز صادق نے کیا تھا، جب انہوں نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں کیے تھے۔
کنور دلشاد کے مطابق سپیکر کہہ سکتا ہے کہ ’تمام ارکان سے استعفوں کی ایک ایک کر کے تصدیق کرنی ہے پھر ان کے استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے عمل کو طول دیا جاسکتا ہے۔‘

شیئر: