لمبے بوٹ پہن کر پانی میں اتر جانے والے، جوش خطابت میں سامنے پڑے سارے مائیک ہاتھوں سے گرا دینے والے اور اگر کبھی موڈ میں ہوں تو سنجیدہ محفلوں میں نغمے سنانے والے اور ترنم سے شاعری پڑھنے والے میاں محمد شہباز شریف اب پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کا زیادہ ووٹ بینک تو اس جماعت کے قائد نواز شریف کی وجہ سے ہے، لیکن اس جماعت کے چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنے کے پیچھے بڑی وجہ وہ کارکردگی ہے جو شہباز شریف نے تین مرتبہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب دکھائی ہے۔
شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم سوتے ہیں اور جب وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں تو روزانہ صبح جلدی بیدار ہو کر سرکاری افسران کو دیے گئے روزانہ کے اہداف پر ان سے رپورٹ لیتے ہیں۔
اس وقت مسلم لیگ نواز کے صدر کے عہدے پر فائز شہباز شریف کو ماضی میں بھی متعدد بار وزیراعظم بننے کا موقع ملا، لیکن وہ اس منصب پر اس لیے فائز نہیں ہو سکے کیونکہ اس کے لیے انہیں اپنے بڑے بھائی سے راہیں جدا کرنا تھیں، اور ان کے بقول یہ انہیں کسی صورت منظور نہ تھا۔
سوٹ اور ہیٹ پہننے کے شوقین
سفاری اور خاکی سوٹ اور ہیٹ پہننے کے شوقین شہباز شریف 23 ستمبر 1951 کو لاہور میں میاں محمد شریف کے کشمیری پنجابی گھرانے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے لاہور ہی کے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کی۔
شہباز شریف 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے بعد مختلف سماجی اور سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے رہے۔
وہ 1988 میں پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990 کے عام انتخابات میں وہ صوبائی کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور اسمبلی کی مدت ختم ہونے تک اس کے رکن رہے۔
1993 میں ایک مرتبہ پھر شہباز شریف صوبائی اور قومی اسمبلی دونوں کے رکن منتخب ہوئے۔ تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن گئے۔
1997 میں شہباز شریف پہلی مرتبہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے جس کے بعد انہوں نے اپنے روائتی انداز سے کام کرتے ہوئے اپنے حمایتیوں اور مداحین سے بہترین منتظم کا خطاب پایا۔
تاہم ان کا یہ سفر 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت اختتام کو پہنچا جب جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا اور شہباز شریف کو ان کے بڑے بھائی اور خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ گرفتارکیا گیا۔
ایک سال قید کاٹنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت شہباز شریف، نواز شریف اور خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ دسمبر 2000 میں جدہ منتقل ہو گئے۔
کچھ عرصے بعد شریف فیملی کے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے بحال ہوئے تو خبریں آئیں کہ اگر شہباز شریف اپنے بھائی سے رستے جدا کر لیں تو ان کو سیاسی سیٹ اپ میں قبول کیا جا سکتا ہے۔
انہی اطلاعات کی گردش کے دوران ہی انہیں سال 2002 میں مسلم لیگ نواز کا صدر بنا دیا گیا جس کے بعد وہ سعودی عرب سے لندن منتقل ہو گئے۔
نومبر 2007 میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی واپسی کے بعد شریف خاندان بھی پاکستان واپس آ گیا۔ تاہم شہباز شریف قتل کے ایک مقدمے میں نامزد ہونے کی وجہ سے 2008 میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔
اس مقدمے میں اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد شہباز شریف نے جون 2008 میں بھکر سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اور ایک مرتبہ پھر صوبہ پنجاب کے وزیر اعلٰی منتخب ہوئے۔
2013 میں شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے اور 7 جون 2018 کو عہدے کی مدت مکمل ہونے تک اس پر فائز رہے۔
2018 کے انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد شہباز شریف نے صوبائی اسمبلی کے بجائے قومی اسمبلی کے رکن بننے کو ترجیح دی اور نواز شریف کی عدم موجودگی میں قائد حزب اختلاف کے عہدے پر فائز ہوئے۔
جب اپوزیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف احتجاجی مہم شروع کی تو ابتدائی طور پر شہباز شریف اور ان کی جماعت تحریک عدم اعتماد کے خلاف تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کی جماعت کو سیاسی نقصان پہنچے گا۔
تاہم گزشتہ سال کے اختتامی مہینوں میں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری، جن کو ایک زمانے میں ’شہباز شریف پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا مال برآمد کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے‘ کی دھمکیاں دیتے تھے، کی ترغیب پر وہ عمران خان حکومت کو جلدی گھر بھیجنے پر راضی ہو گئے۔ جس کے بعد نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قرعہ بھی ان کے نام نکل آیا۔
خادم اعلیٰ اور خادم اعظم
شہباز شریف خود کو وزیراعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ کہلوانا پسند کرتے تھے اور سفاری سوٹ میں ملبوس ہو کر، سر پر ہیٹ سجائے ہر جگہ صورتحال کا جائزہ لینے پہنچ جانا ان کی طبیعت کا خاصہ رہا ہے۔
انہوں نے صوبہ پنجاب میں سڑکیں تعمیر کروائیں، اور لاہور کو جدید شہر بنانے میں کردار ادا کیا۔ لاہور میں عوامی ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے پہلے میٹرو بس اور پھر اورنج لائن ٹرین شروع کی۔
شہباز شریف نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں ملک میں بجلی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے نجی بجلی گھر لگانے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا اور چین کی سرمایہ کاری کے لیے وہاں کی حکومت اور نجی کمپنیوں سے براہ راست رابطے میں رہے۔
تاہم ان کے ناقدین اور مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سارے منصوبے مہنگے قرضے لے کر مکمل کیے جس کی وجہ سے قوم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا۔
شہباز شریف جہاں ایک طرف سڑکیں اور پل بنانے کے لیے مشہور ہیں وہیں ان پر ان کے دور حکومت میں پولیس مقابلوں، بے گناہ افراد کے خلاف کارروائیوں اور منی لانڈرنگ کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔
ماڈل ٹاون کے واقعے کا داغ
جون 2014 میں ان کے گذشتہ دور حکومت کے دوران اس وقت انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے سیاسی مخالف ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر معمولی تنازع پر پولیس نے فائرنگ کر کے 14 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ مقدمہ اب بھی چل رہا ہے اور شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کا تعاقب کرتا ہے۔