یوکرین میں روسی حملوں کی شدت، ’ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں‘
یوکرین میں روسی حملوں کی شدت، ’ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں‘
جمعہ 29 اپریل 2022 6:20
خارکیف کے علاقائی گورنر نے کہا ہے کہ ’روسی افواج ازیوم سے حملے کر رہی ہے تاہم یوکرین کی فوج اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے کیئف کے لیے ہتھیاروں اور بارودی مواد کے 20 ارب ڈالر کے نئے امدادی پیکج کے منصوبے کے بعد روسی افواج نے یوکرین کے مشرقی علاقوں میں اپنی جارحیت میں اضافہ کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یوکرین کی فوج کے جنرل سٹاف کا کہنا ہے کہ دشمن جارحانہ کارروائیوں کی رفتار بڑھا رہا ہے، روسی قابض تقریباً ہر جگہ آگ لگا رہے ہیں۔‘
روس نے سلوبوزہانسکے اور ڈونیٹس کے قصبوں کے قریب حملے کیے ہیں جو یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف کو روس کے زیر قبضہ شہر یزیوم سے جوڑنے والی سٹریٹیجک فرنٹ لائن ہائی وے کے ساتھ ہیں۔
خارکیف کے علاقائی گورنر نے کہا ہے کہ ’روسی افواج ازیوم سے حملے کر رہی ہے تاہم یوکرین کی فوج اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے۔‘
خارکیف کے علاقائی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ’پوکوتیلوکا گاؤں پر روسی گولہ باری سے دو شہری ہلاک جبکہ سات زخمی ہوئے ہیں۔‘
یوکرین کی جانب سے بھاری ہتھیاروں اور اسلحے کی فراہمی کی بارہا درخواستوں کے جواب میں امریکی صدر جو بائیدن نے کانگریس سے کیئف کی مدد کے لیے 33 ارب ڈالر کی درخواست کی ہے۔
یہ امریکہ کی کیئف کو سہارا دینے کی بہت بڑی کوشش ہے جو ایک ایسی شدید جنگ لڑ رہا ہے جس کے جلد خاتمے کی کوئی امید نہیں ہے۔
امریکی اہلکاروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جو بائیڈن کی نئی تجویز (مزید امداد کی) جو پانچ ماہ تک جاری رہنے کی امید ہے، میں 20 ارب ڈالر سے زائد رقم یوکرین کی فوجی امداد اور ہمسایہ ممالک کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔
اس کے علاوہ آٹھ ارب 50 کروڑ ڈالر معاشی امداد کے لیے ہے تاکہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت کے معاملات چل سکیں، اور تین ارب ڈالر خوراک اور شہریوں کی امداد اور دوسرے اخراجات کے لیے ہیں۔
واشنگٹن کو امید ہے کہ یوکرین کی افواج مشرق میں روسی حملے کو پسپا کر سکتی ہیں اور اس کی فوج کو کمزور کر سکتی ہیں تاکہ وہ پڑوسی ممالک کو مزید خطرے سے دوچار نہ کر سکے۔
دارالحکومت کیئف میں قبضے کی کوشش میں ناکامی کے بعد روس نے ایک جنگ میں ڈونباس صوبوں لوہانسک اور ڈونیٹسک پر قبضہ کرنے کے لیے افواج کو مشرق کی طرف منتقل کر دیا ہے جو جنگ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
او ایس سی ای کے سیکیورٹی ادارے کے لیے امریکی مشن نے کہا ہے کہ کریملن جنوبی اور مشرقی علاقوں میں ’جعلی ریفرنڈم‘ کی کوشش کر سکتا ہے جو اس نے حملے کے بعد قبضے میں لیے ہیں۔
’عالمی برادری کو واضح کرنا چاہیے کہ ایسے کسی بھی ریفرنڈم کو کبھی بھی جائز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کا کہنا ہے کہ ’مغرب میں کھل کر کیئف پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ نیٹو ممالک سے ملنے والے ہتھیاروں کے استعمال سے روس پر حملہ کرے۔ میں آپ کو ہمارے صبر کا مزید امتحان لینے کا مشورہ نہیں دوں گی۔‘