Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے معاشی بحران کا سری لنکا سے موازنہ کرنا درست؟

پاکستان میں نئی اتحادی حکومت کے لیے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کو روکنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 200 روپے کا ہندسہ عبور کرگیا ہے۔ 
آئی ایم ایف کی جانب سے قرض پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی سے معاشی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی اس صورت حال کا موازنہ سری لنکا کی صورت حال سے بھی کیا جا رہا ہے جہاں حکومت نے شدید معاشی بحران کے بعد دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ 

کیا پاکستان کی معاشی صورت حال کا سری لنکا سے موازنہ درست ہے؟ 

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر ساجد امین کے خیال میں ’دونوں ممالک کی معیشت کا براہ راست موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی اس وقت جو صورت حال ہے وہ سری لنکا والی نہیں ہے اور نہ مستقبل میں ایسی کوئی صورت حال بنتی نظر آرہی ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ ’ملک میں اس وقت شدید معاشی بحران ضرور ہے لیکن پاکستان میں اس قسم کے بحران پہلے بھی آتے رہے ہیں اور یہ بحران سری لنکا سے کسی بھی طرح مشابہ نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق شدید معاشی بحران کے باوجود بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کا سری لنکا کے ساتھ موازنہ کرنا مبالغہ آرائی ہے۔
’سری لنکا میں کورونا کے باعث سیاحت کے شعبے کو ہونے والے نقصان معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ تھی۔ وہاں 45 فیصد کے قریب زرمبادلہ سیاحت کے شعبے سے کمایا جاتا تھا جو کہ کورونا کی وجہ سے تقریباً ختم ہوگیا اور اس وجہ سے ملک کو ڈالرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
’پاکستان میں آمدنی کا اس طرح انحصار کسی ایک شعبے پر نہیں ہے۔ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے جو کہ اس وقت بڑھ رہی ہیں۔ موجودہ معاشی بحران درآمدات بڑھنے کی وجہ سے ہے جو کہ کنٹرول کی جاسکتی ہیں۔‘
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے خیال میں پاکستان میں اس وقت صورت حال سری لنکا والی نہیں ہے۔

ساجد امین کے مطابق پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے جو کہ اس وقت بڑھ رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’لیکن جس طرح موجودہ حکومت معاشی پالیسی کے حوالے سے فیصلے کرنے میں تاخیر کر رہی ہے اور اس میں مزید تاخیر کی گئی تو ہو سکتا ہے کہ ہم اسی طرف بڑھ جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سری لنکا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہ تین بلین ڈالرز قرض ادا نہیں کر پارہے تھے جبکہ پاکستان کی معیشت کا حجم بڑا ہے۔ سری لنکا کے پاس ڈالرز اتنے کم ہوگئے کہ وہ پٹرول، گیس، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا درآمد نہیں کر سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر مایوسی پھیلتی رہی اور انارکی کا ماحول بن گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت پاکستان کے خزانے میں 10 ارب ڈالرز موجود ہیں۔ ہماری معاشی صورتحال خراب نہیں ہے صرف درآمداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کو روک نہیں پارہے۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ پاکستان اس وقت ڈالرز کما ضرور رہا ہے لیکن بچا نہیں پا رہا۔ ’ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں، ترسیلات زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں لیکن ساتھ ہی درآمدات بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ ہمیں ڈالرز بچانے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان مشترک کیا ہے؟

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ اس وقت  پاکستان اور سری لنکا کے درمیان مشترک اگر کوئی چیز ہے تو وہ ملک کا موجودہ سیاسی بحران ہے۔
’پاکستان میں سیاسی صورت حال اس وقت سری لنکا جیسی سنگین نہیں وہاں دہائیوں سے چلتا ایک سیاسی مسئلہ چلا آرہا تھا۔ جبکہ یہاں ایک نئی حکومت آئی ہے جو کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر کر رہی ہے اور معاشی بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے خیال میں پاکستان میں اس وقت صورت حال سری لنکا والی نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک جو بحران ہے یہ حکومت کے فیصلہ کرنے میں تاخیر کے سبب شدید ہو رہا ہے۔ اگر حکومت آتے ہی وقت پر فیصلے کر لیتی تو مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورت حال نہ ہوتی اور روپے کی قدر اس حد تک نہ گرتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف، پیٹرولیم سبسڈی اور اپنی مدت سے متعلق فیصلے نہ کرنے پر مارکیٹ میں غیر یقینی ہے جس کی وجہ سے بحران بڑھ چکا ہے۔ اگر آج بھی آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو جائے تو روپے کی قدر میں بہتری آئے گی اور مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورت حال ختم ہو جائے گی۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں ’سری لنکا میں لوگوں کے اندر غصہ تھا اور عوام کے غصے سے بچنا چاہیے اور ابھی ہم ان سے دور ہیں۔ حکومت اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی اور وقت ضائع کر رہی ہے۔‘
’اس وقت لوگوں کا ذہن الیکشنز کا بن گیا ہے جس دن انتخابات کا اعلان ہوجائے گا ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں بھی کمی آجائے گی اور مارکیٹ میں بھی ایک غیر یقینی کی فضا ختم ہوگی جس سے صورت حال آہستہ آہستہ بہتری کی طرف جاسکتی ہیں۔‘

شیئر: