Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میرے ہم نشیں‘، ’اعتراض کرنے والے ہی واہ واہ کریں گے‘

مصباح علی سید کے مطابق ہم نے ڈرامے میں ایک خاندان دکھایا ہے اس سے پورے علاقے کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ (فوٹو: ڈرامہ ہم نشیں)
سوشل میڈیا پر آج کل ڈرامہ سیریل ’میرے ہم نشیں‘ پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس ڈرامے میں ’پختون کلچر کو غلط انداز میں‘ پیش کیا گیا ہے۔ کچھ صارفین نے تنقید کی ہے کہ ڈرامے کے کرداروں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھما کر اور دقیانوسی روایات دکھا کر پشتون کمیونٹی کی منفی ترجمانی کی جا رہی ہے۔
اردو نیوز نے اس ڈرامے کی لکھاری مصباح علی سید سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس ڈرامے کی کہانی کا بنیادی آئیڈیا کیا ہے اور وہ اس تنقید کے حوالے سے کیا رائے رکھتی ہیں۔
مصباح علی سید نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ابھی صرف چار قسطیں نشر ہوئی ہیں اور کہا جانے لگا ہے کہ یہ کہانی پشتونوں کے خلاف ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ موضوع کو سمجھیں۔ ہم نے ایک خاندان دکھایا ہے اس پورے علاقے کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔‘
انہوں نے ڈرامے کی کہانی کے حوالے سے بتایا کہ ’اس میں ایک لڑکی دکھائی جا رہی ہے جس کے بچپن میں خاندان میں ایسے حادثات ہوئے جو اس کے ذہن میں رہ گئے۔ اس کی والدہ کو گردے کی تکلیف ہوئی لیکن علاقے میں خاتون ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہسپتال نہیں لے جایا گیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔‘
مصباح علی نے مزید بتایا کہ ’اس لڑکی نے اس علاقے میں رہتے ہوئے ایف ایس سی کی ہے تو میں نے کہاں کچھ دقیانوسی دکھایا ہے۔ کیونکہ اس لڑکی کے ’دا جی‘ نے الیکشن لڑا ہے اس علاقے میں کالج بنوایا ہے۔ اس گھر کے جو بڑے دکھائے ہیں اس لڑکی کے تایا اور ان کے بڑے بیٹے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ اس کو شہر لے کر جاتے ہیں اسے امتحان دلواتے ہیں۔‘
ڈرامے کے منفی کردار کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’صرف ایک منگیتر ہے جو اس لڑکی کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ کہیں وہ اسے چھوڑ کر نہ چلی جائے۔ وہ پڑھا لکھا نہیں ہے اس لیے میں ایسی حرکتیں کر رہا ہے کبھی توڑ پھوڑ کر رہا ہے، کبھی گاڑی کے ٹائر کی ہوا نکال دیتا ہے تاکہ وہ امتحان دینے جا ہی نہ سکے۔‘
مصباح علی کہتی ہیں کہ ابھی سے ڈرامے پر بحث شروع ہو گئی ہے لیکن اس میں بہت پوزیٹیویٹی ہے۔ ’یہی لوگ جو ابھی اعتراض کر رہے ہیں وہ واہ واہ کریں گے کہ میں نے کتنی مضبوط لڑکی دکھائی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ایک جگہ پڑھا کہ اس میں اس غصیلے اور جوشیلے کردار کو پشتونوں کی ایک مخصوص ٹوپی پہنائی گئی ہے۔ ڈائریکٹر صاحب کو اچھی لگی انہوں نے دے دی۔ جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ اس میں بندوق دکھائی گئی تو کیا ان علاقوں میں شکار نہیں ہوتے؟‘
مصباح علی سید کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈرامے میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ایک لڑکی نے روایات کو بھی برقرار رکھا اپنی تعلیم کو بھی اور چیزوں کو بھی سمجھا یعنی اگر ہم عورت کو آگے لے کر آتے ہیں تو وہ بہتر فیصلے کرتی ہیں۔‘

شیئر: