پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے پاکستان میں نوکریوں پر بھرتی کے لیے دیے جانے والے اشتہارات میں سینیٹری ورکرز کی آسامیاں غیر مسلم افراد کے لیے مخصوص کرنے کو غیر آئینی، امتیازی اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں جاری ہونے والی غیر مساوی انسانی حقوق سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینیٹری ورکرز بند گٹر کھولتے ہوئے زہریلی گیس کی وجہ سے اکثر حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
’وفاقی اور صوبائی حکومتیں بند گٹر کھولنے کا طریقہ تبدیل کرتے ہوئے جدید مشینری اور آلات کا استعمال یقینی بنائیں۔‘
اپنی رپورٹ میں انسانی حقوق کمیشن نے لکھا ہے کہ 2009 میں حکومت پاکستان نے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں اور وزارتوں کو پابند کیا تھا کہ ملازمتوں پر بھرتیاں کرتے وقت پانچ فیصد کوٹہ غیر مسلموں کے لیے مخصوص کیا جائے، لیکن نہ صرف اس پر عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ جن افراد کو بھرتی کیا گیا ہے ان میں سے 80 فیصد کو گریڈ ایک سے چار میں بھرتی کیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا میں سینیٹری ورکر کا پھولوں کی پتیوں اور تالیوں سے استقبالNode ID: 468651
-
منکی پاکس کے کیسز کا خدشہ: قومی ادارہ صحت نے الرٹ جاری کر دیاNode ID: 671101
اس وقت بھی وفاقی اور صوبائی اداروں میں غیر مسلموں کے لیے مخصوص نصف آسامیاں خالی پڑی ہیں، جبکہ انسانی حقوق کمیشن نے 300 سے زائد ایسے اشتہارات کی سکروٹنی کی ہے جن میں سینیٹری ورکرز کی آسامیوں کے آگے لکھا جاتا ہے کہ ان کے لیے صرف غیر مسلم افراد ہی درخواست دے سکتے ہیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن ربیعہ جویری نے بتایا کہ ’اکتوبر2021 میں سرگودھا میں ہفتہ وار چھٹی پر موجود تین سینیٹری ورکرز کو ڈیوٹی پر بلایا گیا اور انہیں بند گٹر کھولنے کے احکامات دیے گئے۔‘
’گٹر کھولنے کے لیے ایک سینیٹری ورکر مائیکل مسیح گٹر میں اترا اور وہ زہریلی گیس کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا۔ ریسکیو ورکرز نے اسے ریسکیو کرنے کے لیے گٹر مین اترنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس کے دو ساتھی ندیم اور فیصل مسیح اسے بچانے اترے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کوشش میں مائیکل مسیح تو بچ گئے لیکن اسے بچانے والے دونوں ورکرز جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جہاں ان ورکرز کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ریسکیو ورکرز انہیں بچانے سے انکار کرتے ہیں، ڈاکٹرز علاج کرنے سے منع کر دیتے ہیں اور عام افراد ان کے ساتھ بیٹھا اور کھانا پینا مناسب نہیں سمجھتے۔‘
’یہ صرف مزدوروں کے حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مذہبی تفریق ہے جو نہیں ہونی چاہیے۔‘
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملازمتیں دیتے وقت مذہبی تفریق نہیں برتنی چاہیے بلکہ خالصتاً میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کے وفاقی اداروں میں کام کرنے والے غیر مسلم سرکاری ملازمین میں سے 80 فیصد گریڈ ایک سے چار میں تعینات ہیں، جبکہ گریڈ پانچ سے 10 تک 11 فیصد، گریڈ 11 سے 16 میں چھ اعشاریہ آٹھ فیصد، گریڈ 17 سے 20 میں صرف ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تعینات ہیں۔
