بلوچستان: سرکاری اساتذہ کے بچوں پر نجی سکولوں میں پڑھنے پر پابندی
بلوچستان: سرکاری اساتذہ کے بچوں پر نجی سکولوں میں پڑھنے پر پابندی
پیر 23 مئی 2022 20:21
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ڈپٹی کمشنر لورالائی نے بتایا کہ ’فی الحال صرف سرکاری اساتذہ کو پابند کیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان کے ضلع لورالائی میں مقامی انتظامیہ نے سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ پر اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
ایک سرکاری حکم نامے میں اساتذہ کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف سرکاری سکولوں میں داخل کرائیں۔
اردو نیوز کے کو دستیاب حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’تمام سرکاری اساتذہ کے بچے پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں میں ان کی دلچسپی نہیں ہے اور تعلیمی معیار دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے۔‘
سرکاری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام سرکاری اساتذہ کے بچے آئندہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں سرکاری اساتذہ اپنا کردار ادا کریں۔‘
ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سرکاری اساتذہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروا کر تصدیقی سرٹیفکیٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے پاس جمع کرائیں۔
ساتھ ہی انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ کسی سرکاری استاد کا بچہ نجی سکول میں پایا گیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا۔
لورالائی کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عتیق الرحمان شاہوانی نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ ضلعی انتظامیہ نے یہ فیصلہ سرکاری محکموں کے ضلعی سربراہان پر مشتمل ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تعلیمی معیار مسلسل گر رہا ہے۔ پہلے سرکاری اداروں کا تعلیمی معیار بہت بہتر تھا۔ ہم خود بھی سرکاری سکولوں میں پڑھے ہیں، مگر اب سکولوں کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ سرکاری اساتذہ اپنے بچے بھی وہاں داخل کرانے کے لیے تیار نہیں۔‘
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے گھر میں تیار ہونے والا کھانا تو دوسروں کو پیش کریں مگر خود نہ کھائیں۔‘
ڈاکٹر عتیق شاہوانی کا کہنا تھا کہ جب سرکاری اساتذہ کے بچے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں پڑھیں گے تو ان کی سرکاری تعلیمی اداروں کی جانب توجہ بڑھے گی اور معیار تعلیم بھی بہتر ہوگا۔
کیا یہ پابندی باقی سرکاری افسران پر بھی لاگو ہوگی؟
اس سوال پر ڈپٹی کمشنر لورالائی نے بتایا کہ ’فی الحال صرف سرکاری اساتذہ کو پابند کیا گیا ہے، مستقبل میں ہم باقی افسران کو بھی اس کا پابند کرسکتے ہیں۔‘
لورالائی میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی انجمن (گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن) کے صدر گل خان کدیزئی نے ڈپٹی کمشنر کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ضلع کے بیشتر سکولوں میں فرنیچر، پانی، بجلی اور لیٹرین نہیں ہے۔ بعض سکول تو ایسے بھی ہیں جن کی کوئی چار دیواری بھی نہیں۔ تعلیمی سال ختم ہونے پر بھی مفت تقسیم کی جانے والی سرکاری کتابیں طلبہ تک نہیں پہنچتیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سکولوں میں ان تمام سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری محکمہ تعلیم سمیت دیگر سرکاری محکموں کی ہے، مگر وہ ان کو پورا نہیں کررہے۔ جب تک سیکریٹریز، ضلعی محکموں کے سربراہان اور ڈپٹی کمشنر خود اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھائیں گے اس پابندی کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
گل خان کدیزئی کا کہنا تھا کہ اساتذہ جب خود ایسے سکولوں میں پورا دن موجود ہوتے ہیں، وہاں باقی بچوں کو پڑھاتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو وہاں لے جاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض اساتذہ کی تعیناتی اپنے گھر سے دور ہوتی ہے یا بعض ایسے سرکاری سکول ہوتے ہیں جہاں پانچ پانچ کلاسز کو صرف ایک استاد پڑھاتا ہے، اس لیے استاد اپنے بچوں کو نجی سکول میں پڑھانے کو ترجیح دیتا ہے۔
جی ٹی آے کے ضلعی صدر کا کہنا تھا کہ اپنی ڈیوٹی سے صرف وہ اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں جو کسی وزیر، رکن اسمبلی، سیکریٹری یا با اثر شخصیت کی سفارش رکھتا ہو۔ ایسے اساتذہ کے خلاف کارروائی کرکے اساتذہ اور سہولیات کی کمی کو دور کیا جائے تو تعلیمی اداروں کا معیار خود بہتر ہوجائےگا۔
بلوچستان کے سابق سیکریٹری تعلیم غلام علی بلوچ کا اس سرکاری حکم نامے کے حوالے سے کہنا ہے کہ صوبائی سطح پر حکومت کی ایسی کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی قانون موجود ہے جس کے تحت نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلانے پر سرکاری اساتذہ کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ نے اپنے طور پر تعلیمی معیار بہتر کرنے کے لیے کوئی انتظام کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ نہیں سمجھتے کہ اس اقدام سے تعلیمی معیار کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔