Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعا زہرہ کو 30 مئی کو عدالت میں پیش کیا جائے: عدالت

عدالت نے ریماکس دیے کہ ’لڑکی کو یہاں لانا پڑے گا، یہیں کیس کا فیصلہ ہوگا۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتہ ہونے والی لڑکی دعا زہرہ کو 30 مئی کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
منگل کو جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
آئی جی سندھ ڈاکٹر کامران فضل، ایس ایس پی ایسٹ سمیت دعا زہرہ کے والدین اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ 
پولیس کی جانب سے عدالت میں دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ لڑکی کی مظفر آباد کی لوکیشن ٹریس ہوئی ہے مگر تمام نمبرز بند ہوگئے اور موبائل سگنلز کی لوکیشن بالاکوٹ کی تھی۔ 
آئی جی سندھ ڈاکٹر کامران فضل نے عدالت کو بتایا کہ ’پنجاب پولیس سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا بچی کو خیبرپختونخوا منتقل کردیا گیا ہے۔‘
عدالت نے ریماکس دیے کہ ’لڑکی کو یہاں لانا پڑے گا، یہیں کیس کا فیصلہ ہوگا۔‘
سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو 30 مئی کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ تمام صوبوں کی پولیس دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے اقدامات کرے۔
آئی جی سندھ کامران فضل کا کہنا ہے کہ ’جو لڑکی کے ساتھ ہیں ان کو معلوم  ہو جاتا ہے کہ ہم پہنچ گئے تو وہ نکل جاتے ہیں، کوشش کررہے ہیں بچی جلد بازیاب ہو جائے۔ ابھی کیس کی تحقیقات جاری ہیں، مزید نہیں بات نہیں کی جاسکتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا کوئی سراغ نہیں ملا کہ اس معاملے میں منظم گروہ ملوث ہو۔‘
اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ کے والد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت میں لڑکی کے والد کے وکیل الطاف ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ ’ظہیر احمد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بیٹی کی والدین سے ملاقات کروائی جائے۔‘
جس پر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ لڑکی عدالت میں بیان دے چکی ہے۔
عدالت کے ریمارکس پر وکیل نے مؤقف اپنایا تھا کہ ’ہمیں دعا زہرہ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا، ہمیں سوشل میڈیا سے معلومات مل رہی ہیں۔‘
دوران سماعت  دعا زہرہ کے والد کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے اور زبردستی نکاح کروایا گیا ہے، حقائق جاننے کے لیے بیٹی کو عدالت میں لایا جائے تاکہ عدالت میری بیٹی کا بیان قلمبند کرسکے۔‘
عدالت نے دعا زہرہ کے والد کی درخواست پر لڑکی کے شوہر ظہیر احمد سمیت فریقین کو 19 مئی کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ داخلہ، آئی جی سندھ، ایس ایس پی شرقی اور دیگر کو بھی نوٹس جاری کیے تھے۔ 
دوسری جانب کراچی میں دعا زہرہ کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں شہلا رضا کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس سندھ کی بچیوں کی بازیابی میں تعاون نہیں کررہی۔ 
 ان کا کہنا تھا کہ یو ٹیوبرز بچیوں تک پہنچ گئے مگر پنجاب پولیس کو پتہ نہیں چل رہا کہ دعا زہرہ کہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’معلوم ہوا ہے کہ یہ منظم گروہ ہے جو بچیاں اغوا کرکے دبئی بھیجتا ہے، کراچی کی ایک فیملی نے ان کی پہچان کی ہے۔ میں خود ماں ہوں ، بچیوں کی بازیابی کے لیے ہر حد تک جاؤں گی۔‘
واضح رہے کہ دعا زہرہ کراچی کے علاقے ملیر گولڈن ٹاؤن سے لاپتہ ہوئی تھیں جو پاکپتن سے بازیاب ہوئیں۔ دعا زہرہ نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ظہیر احمد سے شادی کرلی ہے۔

شیئر: