Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عامر لیاقت: شہرت کی بلندیوں سے تنہائی کی اذیتوں تک

عامر لیاقت حسین کے اچانک انتقال کی خبر جس نے بھی سنی اسے یقین ہی نہیں آیا کہ زندگی اور تنازعات سے بھرپور شخص ایک دم دنیا کے سٹیج سے اچانک کیسے غائب ہو گیا۔
کراچی کے آغا خان ہسپتال  نے جمعرات کو معروف ٹی وی اینکر اور پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی موت کی تصدیق کی تاہم موت کی وجوہات تاحال سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے روشن خیال اسلام کے تصور کے مطابق عامر لیاقت پاکستان میں نجی ٹی وی چینل پر ایک کلین شیو اسلامی سکالر بن کر نمودار ہوئے۔
ان کا پروگرام ’عالم آن لائن‘  دیکھتے ہی دیکھتے انہیں شہرت کی بلندیوں تک لے گیا اور وہ پاکستان میں ٹی وی کے مشہور ترین چہروں میں سے ایک بن گئے۔ ان کا نام تین بار 500 مشہور اسلامی شخصیات کی فہرست میں آیا۔ 
2002 کے عام انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور جنرل  پرویز مشرف کی حمایت سے انہیں کابینہ میں وزارت مذہبی امور کا قلمدان بھی مل گیا۔
اس کے باوجود انہوں نے ٹی وی پر مذہبی پروگرام جاری رکھا جس میں ملک کے ممتاز علمائے کرام سے اسلام اور زندگی کے حوالے سے موضوعات پر بات چیت کی جاتی تھی۔ 
ٹی وی میں آنے سے قبل کراچی میں عامر لیاقت کی وجہ شہرت تقریری مقابلوں میں کامیابی تھی۔ ان کے مخالفین بھی زبان و بیان پر ان کی گرفت کے معترف ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے ملک کے معروف اینکر حامد میر نے بتایا کہ ’عامر لیاقت حسین نے جون - جولائی 2002 میں جب صحافتی کیرئیر شروع کیا تھا۔ جیو ٹی وی کی ٹریننگ میں وہ دو ماہ تک ساتھ رہے اور اس دوران دونوں کی دوستی ہو گئی۔

پروگرام ’عالم آن لائن‘ عامر لیاقت کو شہرت کی بلندیوں تک لے گیا (فوٹو: جیو ٹی وی)

’ابھی چینل کی نشریات شروع نہیں ہوئی تھیں کہ اس دوران ایک دن کراچی میں دھماکہ ہو گیا تو ہم نے فیصلہ کیا ہم اس کو بطور چینل ایسے ہی کور کریں گے جیسے لائیو ٹی وی کرتا ہے۔ عامر لیاقت نے سکرین پر خبر بریک کی اور میں نے انہیں بیپر بھی دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب اگست میں چینل نے ٹیسٹ ٹرانسمیشن شروع کیں تو عامر لیاقت پہلے خبریں پڑھنے والوں میں سے تھے۔‘
حامد میر کے مطابق ان کا عامر لیاقت سے بطور صحافی تعلق مختصر تھا پھر جب وہ ایم این اے بنے تو وہ تعلق ختم ہو گیا۔ ’جب وہ بول ٹی وی میں گئے تو میرے خلاف الزامات پر مبنی پروگرام بھی کیا۔  مجھے جب کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تو عامر لیاقت نے ایک کالم حمایت میں بھی لکھا تھا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ عامر لیاقت دنیا سے چلے گئے ہیں تو وہ ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں۔ ’آخری دنوں میں عامر لیاقت تکلیف میں رہے۔ انہوں نے بڑی شہرت کمائی مگر میرے خیال میں انہیں سیاست میں نہیں آنا چاہیے تھا۔‘ 
’عامر لیاقت دوستوں کے دوست تھے‘
ممبر رحمت للعالمین اتھارٹی ڈاکٹر محمد عامر طاسین نے اپنے 23 سال پرانے کالج کے زمانے کے دوست ڈاکٹر عامر لیاقت کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی گزاری تاہم آخری چند برسوں میں شاید حالات ان کے کنٹرول میں نہ رہے اور کچھ ایسی عادات کے ہاتھوں مجبور ہوئے جنہوں نے ان کو بہت نقصان پہنچایا۔
ڈاکٹر طاسین نے بتایا کہ وہ دونوں جب کالج میں تھے تو کراچی کی تقریر، قرات اور نعت کی ٹیم اسلام آباد میں انٹربورڈ مقابلے کے لیے آئی جس میں وہ دونوں بھی تھے۔ اس کے بعد دوستی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری رہا تاہم آخری پانچ سالوں سے ان کا رابطہ کم ہو گیا تھا۔

ٹی وی سے قبل عامر لیاقت کی وجہ شہرت تقریری مقابلوں میں کامیابی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)

ڈاکٹر طاسین کے مطابق عامر لیاقت دوستوں کی مدد کرنے والے ایک اچھے انسان تھے۔ وہ جن جن اخبارات اور ٹی وی چینلز میں گئے اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لے کر گئے اور زندگی بھر انہیں سپورٹ کیا۔
’وہ دوسروں کو آگے بڑھانے والے اور مدد کرنے والے اچھے انسان تھے۔‘  
ڈاکٹر عامر کے والد شیخ لیاقت حسین مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی رہنما تھے اور ان کی والدہ محمودہ سلطانہ جنرل ضیا الحق کی مجلس شوری کی رکن تھیں۔ 
تاہم ان کے دوست کے مطابق عامر لیاقت نے ماں باپ سے سوائے تعلیم کے کچھ نہیں لیا بلکہ اپنی شہرت دولت اور ترقی اپنی محنت اور تخلیقی صلاحیت سے حاصل کی۔
ڈاکٹر طاسین کے مطابق انہوں نے میڈیکل کی تعلیم کے لیے ڈاو میڈیکل کالج اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں داخلہ لیا مگر وہ ڈگری مکمل نہ کر سکے تاہم بعد میں کہیں پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کی جن پر تنازعات بھی سامنے آئے۔ ’جب عامر لیاقت مجھے ملے تو ان کے پاس ایک پرانی موٹر سائیکل تھی۔ اس کے بعد سب کچھ انہوں نے محنت سے بنایا۔‘ 
ڈاکٹر طاسین کے مطابق عامر لیاقت کا سب سے بڑا تحفہ ان کی تخلیقی صلاحیت تھی اور وہ بلا کے مقرر تھے۔ان کے بڑے بھائی عمران لیاقت بھی بہت زہین تھے مگر وہ بھی تنازعات کا شکار ہوئے اور ان کی موت بھی اسی طرح اچانک ہوئی۔
عامر لیاقت کے فن تقریر کے استاد اور جامعہ کراچی کے پروفیسر محمود غزنوی کا کہنا تھا کہ اگر کبھی عامر لیاقت تقریری مقابلے میں دوسری پوزیشن لیں تو وہ ان کے پاس آتے تھے کہ مجھے بتائیں کہ میری خامی کیا ہے۔ ’میں انہیں کہا کرتا تھا کہ آپ تقریر کیا کریں مجلس نہ پڑھا کریں۔‘

عامر لیاقت کئی ٹی وہ پروگراموں کا حصہ رہے۔ فوٹو: عامر لیاقت انسٹا

عامر لیاقت سے جڑے تنازعات
عامر لیاقت کی بھرپور زندگی میں بہت سارے تنازعات سامنے آئے۔ جب وہ وزیر مملکت برائے مذہبی امور تھے تب بھی ان کی جعلی ڈگری کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں۔ اس نامہ نگار نے ان سے رابطہ کیا تو جھگڑ پڑے تاہم تھوڑی دیر بعد فون کر کے بولے ’آپ بھائی ہیں میرے خلاف جعلی ڈگری کی خبریں تحقیق کے بغیر دی جا رہی ہیں۔‘
ان کی ایگزیکٹ کی ڈگری پر بھی تنازع بنا تاہم ان کا دعویٰ رہا کہ ان کی ڈگری اصلی ہے۔
عامر لیاقت رمضان ٹرانسمیشن کو مقبول ترین بنانے میں پیش پیش تھے۔ ان پر تنقید بھی ہوئی کہ رمضان کے مقدس مہینے میں گیم شوز کے ذریعے لوگوں کو لالچ دلواتے ہیں اور عبادات کے بجائے تفریح کو فروغ دیتے ہیں۔ تاہم ان کی ٹرانسمیشن بہت مقبول اور ٹی وی چینلز کے لیے اتنی منافع بخش ثابت ہوئیں کہ دیکھتے دیکھتے سب ٹی وی چینل پر رواج پڑ گیا۔
وہ ٹی وی پر رمضان کی طاق راتوں کو رقت آمیر دعا بھی کرواتے تھے۔ مگر ایک بار ان کی سٹوڈیو کی ویڈیوز لیک ہوئیں تو وہ ایک نئے تنازعے میں پھنس گئے۔ ان ویڈیوز میں وہ علمائے کرام سے فلموں کے حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے پائے گئے۔ اس کے بعد ان کے بطور سکالر امیج کو خاصا نقصان پہنچا۔
بطور وزیر اور سیاستدان بھی تنازعات کا شکار رہے اور ایم کیو ایم کا حصہ ہوتے ہوئے پارٹی رہنما الطاف حسین کے حق میں تقاریر کے بعد جب انہوں نے پارٹی چھوڑی تو الطاف حسین کے خلاف ان کے تقاریر بھی اتنی ہی زوردار ہوتی تھیں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے حق اور مخالفت میں ان کی تقاریر موجود ہیں۔ یہی حال ان کی آخری جماعت پی ٹی آئی کا تھا۔ وہ 2018 میں عمران خان کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے تاہم بعد میں عمران خان کے خلاف سخت زبان بھی استعمال کی۔ ان کے ٹوئٹر ہینڈل پر اتنی سخت زبان استعمال کی جاتی تھی کہ اسے عام میڈیا جگہ نہیں دے پاتا تھا۔
ان کی دوسری اور تیسری شادی پر بھی تنازعات بنے اور ان کی دانیہ ملک سے تیسری شادی سوشل میڈیا پر کئی دن تک زیر بحث رہی۔ بعد میں دانیہ ملک نے ان پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان سے خلع کا دعوی دائر کر دیا۔
عامر لیاقت گزشتہ کئی ہفتوں سے اس معاملے پر خاصے رنجیدہ تھے اور کئی انٹرویوز میں کھل کر دکھ کر اظہار کرتے تھے کہ ان پر بہتان عائد کیا گیا۔ انہوں نے ملک سے چلے جانے کا بھی عندیہ دیا تھا۔  
ان کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ پچاس سال کی عمر میں عامر لیاقت نے دنیا کے سارے اتار چڑھاو دیکھ لیے اور شہرت اور بلندی بھی دیکھ لی اور دکھ اور تنہائی بھی۔ گویا انہوں نے پوری زندگی فاسٹ ٹریک پر گزاری اور وہیں سے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔

شیئر: