انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور میں حکام کی جانب سے دو مسلمانوں کے گھر گرائے جانے کے بعد اتوار کو پریاگ راج میں بھی ایک مسلمان سیاستدان کا گھر گرایا جا رہا ہے۔
ان سیاستدانوں پر جمعے کے روز توہین مذہب کے معاملے پر ہونے والے پرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں پریاگ راج سے تعلق رکھنے والے سیاستدان جاوید محمد کے گھر کے بیرونی حصے کو بلڈوزر کی مدد سے گراتے دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
اسلام مخالف بیان، انڈیا کو ’بڑے سفارتی بحران‘ کا سامناNode ID: 675351
-
مسلم دنیا کے ساتھ سفارتی بحران سے انڈیا کو کتنا نقصان ہو گا؟Node ID: 675986
-
انڈیا میں گستاخانہ تبصروں کے خلاف مظاہرے، دو افراد ہلاکNode ID: 676636
پولیس کا الزام ہے کہ جاوید محمد جمعے کو ہونے والے مظاہروں کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہیں۔ خیال رہے کہ پریاگ راج میں ہونے والے ان مظاہروں میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
گھر کے باہر صحافیوں کی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں پولیس اور میونسپل کی ٹیمیں گھر میں دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ گھر کا سامان بکھرا ہوا ہے۔ گھر کا کچھ فرنیچر اور دیگر سامان بھی حکام کی جانب سے باہر پھینکا گیا ہے۔
خیال رہے کہ جاوید محمد ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رکن ہیں جبکہ ان کی بیٹی آفرین فاطمہ جواہر لال یونیورسٹی دہلی میں طالب علم رہنما کے طور پر شناخت رکھتی ہیں۔
میونسپل ایجنسی کا الزام ہے کہ جاوید محمد کی رہائش گاہ کے گراؤنڈ فلور اور پہلی منزل کی تعمیرات غیرقانونی ہیں جن کی مسماری کا نوٹس چند گھنٹے پہلے دیا گیا تھا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق جاوید محمد کی رہائش گاہ کے گھر کے باہر نوٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے رواں برس مئی میں مسماری سے متعلق بھیجے گئے نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا۔
نوٹس کے مطابق جاوید محمد کو نو جون تک غیرقانونی تعمیرات مسمار کرنے کا کہا گیا تھا اور 12 جون صبح 11 بجے انہیں رہائش گاہ خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا۔
اس سے قبل نو جون کو سہارنپور میں بھی پولیس کی موجودگی میں غیرقانونی تعمیرات کے الزام میں دو گھروں کو مسمار کیا گیا تھا۔
ایسی ہی مسماری کانپور میں بھی کی گئیں جہاں تین جون کو مظاہرے ہوئے تھے۔
’بی جے پی کی سابق ترجمان کا سر قلم کرنے کی دھمکی پر کشمیری نوجوان گرفتار‘
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی پولیس نے ایک نوجوان کو حکمران جماعت کی سابق ترجمان کا ’سر قلم کرنے کی‘ دھمکی دینے پر گرفتار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نوجوان نے دھمکی آمیز ویڈیو یوٹیوب پر پبلش کی تھی، جس کو حکام نے ملک میں جاری بدامنی کی لہر روکنے کے لیے ہٹا دیا ہے۔
رواں ہفتے حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حکومتی ارکان کی جانب سے اسلام مخالف تبصروں کے بعد مسلمانوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔
رواں ماہ کے آغاز میں واقعے کے بعد بی جے پی نے ترجمان نوپور شرما کو معطل کر دیا تھا جبکہ ایک اور رہنما نوین کمار جندال کو بھی پیغمر اسلام کی نجی زندگی کے بارے میں متنازع بیان کے بعد نکال دیا گیا تھا۔
واقعات کے بعد کئی مسلمان ممالک میں غصے کی لہر دیکھی گئی اور مودی حکومت کو سفارتی سطح پر بھی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔
بی جے بی کے دونوں رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔
متذکرہ ریمارکس کے بعد ملک میں احتجاج اور جھڑپیں بھی ہوئیں۔ گزشتہ ہفتے مشرقی شہر رانچی میں مظاہرے کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو نوجوان ہلاک ہو گئے تھے جبکہ شمالی ریاست اپرپردیش میں پھوٹنے والے فسادات میں پولیس نے 300 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔
اسی طرح مغربی بنگال میں حکام نے ایک ہنگامی قانون کا نفاذ کیا ہے جس کے مطابق 16 جون تک لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہو گی۔
کم سے کم 70 افراد کو فسادات اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔
تازہ فرقہ ورانہ فسادات کے بعد 48 گھنٹے تک انٹرنیٹ کی سروسز کو معطل رکھا گیا۔
بی جے پی کی جانب سے سینیئر ارکان کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ پبلک مقامات پر مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ’بہت زیادہ احتیاط‘ سے کام لیں۔