16 اسلامی اکثریتی ممالک نے ٹویٹس، سرکاری بیانات اور انڈین سفارت کاروں کو طلب کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ بی جے پی کو مجبور کیا گیا کہ وہ پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کو معطل کرے اور دوسرے عہدیدار کو ٹویٹ میں ان کے جارحانہ تبصرے کے سکرین شاٹ کی وجہ سے بےدخل کرے۔
اس سے قبل ان کے تبصروں کے خلاف شمالی انڈیا کے شہر کانپور میں ہونے والے مظاہروں میں 40 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔
27 مئی کو نوپور شرما نے عدالت میں زیر سماعت تنازع پر ایک ٹی وی چینل پر بحث کے دوران تبصرہ کیا تھا جس پر انہیں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب یہ کلپ ایک صحافی نے ٹوئٹر پر شیئر کیا۔
توہین آمیز تبصروں کے بعد مسلم ممالک میں انڈیا کے لیے غم وغصہ پایا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اپنی برطرفی کے بعد نوپور شرما نے لکھا کہ وہ اپنے بیان کو ’غیر مشروط طور پر‘ واپس لے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میرا مقصد کبھی کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔‘
متعدد سابق انڈین سفارت کاروں نے اس واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسلامی دنیا کے ساتھ انڈیا کے تعلقات میں بحران سنگین ہو سکتا ہے۔
سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے گھر میں جو چاہے کرے اور اسلامی یا مغربی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا فائدہ بھی اٹھائے۔
ایک سابق انڈین سفارت کار مصنف اور سیاسی مبصر تلمیز احمد عرب نیوز کو بتایا کہ ’متعدد مواقع پر ہم نے انڈیا کی مسلم کمیونٹی کے ساتھ بدسلوکی اور ملک کے اسلامی ورثے کو مٹانے کی کوششیں دیکھی ہیں۔ دوسرے ممالک کی ایک طویل روایت ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے لیکن جب آپ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو یہ ایک نو گو ایریا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب باہر کے لوگ کہیں گے کہ بہت ہو چکا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ وقت آگیا ہے۔ آپ اندرون ملک کسی مخصوص کمیونٹی کو اذیت نہیں دے سکتے۔‘
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جارحانہ ٹویٹس اور تبصرے ’کسی بھی طرح سے حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔‘
16 ممالک نے ٹویٹس، سرکاری بیانات اور انڈین سفارت کاروں کو طلب کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے
تلمیز احمد کے مطابق جی سی سی ممالک میں انڈین کمیونٹی کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے جو ریونیو ملتا ہے وہ انڈین حکومت کے سالانہ تیل کے درآمدی بلوں کے ایک تہائی سے زیادہ کا احاطہ کرتا ہے۔
انہوں نے تجارت، لاجسٹکس، توانائی اور سرمایہ کاری پر مشتمل بلاک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کے لیے اصل خطرہ انڈین سامان کا بائیکاٹ نہیں بلکہ انڈیا کے کارکنوں کی بھرتی پر پڑنے والا ممکنہ منفی اثر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 85 لاکھ انڈین شہری جی سی سی بلاک میں کام کرتے ہیں۔ ہر سال وہ تقریباً 35 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجتے ہیں جس سے انڈیا میں 40 لاکھ خاندان کے افراد کی کفالت ہوتی ہے۔
سابق انڈین سفارتکار تلمیز احمد نے بتایا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سفارتی ردعمل ان تعلقات کو طویل مدتی نقصان پہنچائے جو انڈیا کو خلیج عرب اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
27 مئی کو نوپور شرما کی جانب سے کیے جانے والے تبصرے کے بعد سے انڈیا تنقید کی زد میں ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے کہا کہ ’میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ کورس کی ایک حد تک اصلاح ہوگی۔ کچھ مشورے اور وارننگ دی گئی ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ باہمی مفاد کے لیے دونوں طرف سے کام کیا جائے گا۔
احمد جنہوں نے سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات میں انڈیا کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں، نے مزید کہا کہ ’خلیج میں ہمارے انڈیا کے سب سے پیارے دوست ہیں۔ کاش کہ ان کے سینیئر لیڈروں اور سفارت کاروں نے خاموشی سے انڈیا میں بعض عہدیداروں کو مشورہ دیا ہوتا کہ اگر ملک میں کسی مخصوص کمیونٹی کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ جاری رہا تو دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انڈیا کی حکمران جماعت کو اپنی گھریلو پالیسیوں کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور انڈیا کے دوستوں (مسلم دنیا میں) کو قائل کرنا چاہیے کہ اصلاحی اقدامات کے جا رہے ہیں۔‘