شرح سود میں دو فیصد کمی: معیشت اور عام لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
شرح سود میں دو فیصد کمی: معیشت اور عام لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
پیر 16 دسمبر 2024 15:57
زین علی -اردو نیوز، کراچی
زری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں کہا کہ نومبر 2024 میں عمومی مہنگائی کی شرح 4.9 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ (فائل فوٹو: بلومبرگ)
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے اجلاس میں پالیسی ریٹ میں 200 بی پی ایس کی کمی کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد شرح سود 13 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ یہ فیصلہ 17 دسمبر 2024 سے نافذ العمل ہو گا۔ اس کمی کے ساتھ ہی جون 2024 سے اب تک شرح سود میں مجموعی طور پر 9 فیصد کی کمی کی جا چکی ہے۔
معاشی ماہرین اور تاجر رہنماؤں نے سٹیٹ بینک کے پیر کو شرح سود میں کمی کے فیصلے پر ملے جلے رحجان کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے شرح سود میں کمی کا تسلسل برقرار رکھا ہے، جو کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ملکی اقتصادی حالات کو دیکھتے ہوئے سٹیٹ بینک کو شرح سود میں مزید کمی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کی نمو اور کاروباری سرگرمیاں بہتر ہوسکیں۔
معاشی امور کے ماہر عبدالعظیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اس سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کے لیے ضروری ہے کہ آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے ملکی برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔ پیدواری لاگت میں کمی ہو گی تو برآمدات میں اضافہ ہو گا اور ملکی معیشت کو سہارا ملے گا۔
’اس کے علاوہ شرح سود میں کمی کا فائدہ کسی حد تک عام آدمی تک بھی پہنچے گا۔ گھر، گاڑی اور ذاتی قرضہ لینے والے افراد اب کم ریٹ پر یہ سہولت حاصل کر سکیں گے. اس کے علاوہ اگر بڑے سیکٹرز جو روز مرہ کی اشیا کے کاروبار سے وابستہ ہیں، اپنی لاگت کی کمی کو نچلی سطح تک منتقل کریں تو اس سے بھی عوام کو برائے راست فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘
دوسری جانب کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد جاوید بلوانی نے سٹیٹ بینک کے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کے ساتھ پالیسی ریٹ اب 13 فیصد ہے، جو کہ ابھی بھی بہت زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت کو تقویت دینے کے لیے پالیسی ریٹ میں مزید نمایاں کمی کی ضرورت ہے تاکہ یہ عالمی معیارات کے مطابق ہو، جہاں دیگر ممالک کی شرح سود 5 سے 7 فیصد کے درمیان ہے۔
جاوید بلوانی نے انڈیا، ویتنام اور بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کے پالیسی ریٹ بالترتیب 6.5 فیصد، 4.5 فیصد اور 10 فیصد ہیں۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے کہا کہ ’تاجر برادری سنگل ڈیجٹ شرح سود دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ یہ کاروبار کے لیے قرضوں کی سہولت فراہم کرے گا اور کاروباری توسیع میں مدد دے گا۔‘
’اگر قرضوں پر شرح سود کم ہو گی تو کاروباری لاگت میں کمی آئے گی اور معیشت کو فائدہ ہو گا۔ شرح سود میں کمی سے نہ صرف کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی بلکہ مالی بوجھ بھی کم ہو گا، جس سے معیشت کی مجموعی ترقی میں بہتری آئے گی۔‘
پالیسی میں نرمی کا اعتراف
محمد جاوید بلوانی نے سٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں نرمی برقرار رکھنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مسلسل پانچویں دفعہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے، جس سے پالیسی ریٹ 22 فیصد سے 13 فیصد تک آ گیا ہے۔
تاہم صدر فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری عاطف اکرام شیخ نے مانیٹری پالیسی میں 2 فیصد کمی کو ناکافی قرار دیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے شرح سود میں 5 فیصد کمی کا مطالبہ کیا تھا۔ ملک میں افراط زر کی شرح 4.9 فیصد پر آ گئی ہے، جو کہ 78 ماہ کی کم ترین سطح ہے۔ مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی کے بعد پالیسی ریٹ کو وقت ضائع کیے بغیر کم کر کے سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے۔
عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ جون 2024 کے بعد مسلسل پانچ اجلاسوں میں شرح سود میں 9 فیصد کمی خوش آئند ہے۔ زرمبادلہ ذخائر میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کیساتھ ساتھ معاشی اشارے مثبت ہیں۔
زری پالیسی کمیٹی کا تجزیہ
زری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں کہا کہ نومبر 2024 میں عمومی مہنگائی کی شرح 4.9 فیصد تک کم ہو گئی ہے، جو کہ گذشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔
اس کمی کی بنیادی وجہ غذائی مہنگائی میں اعتدال اور نومبر 2023 میں گیس کے نرخوں میں اضافے کے اثرات کا بتدریج خاتمہ ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اس کمی کی توقعات کے مطابق اس کا اثر مزید چند مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
کمیٹی کا تجزیہ ہے کہ پالیسی ریٹ میں محتاط کٹوتیوں کا یہ طریقہ کار مہنگائی کے دباؤ اور بیرونی کھاتے کے دباؤ کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشی نمو کو پائیدار بنیادوں پر تقویت دے رہا ہے۔ اس فیصلے کے بعد مرکزی بینک کا مقصد اقتصادی استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے معیشت کے مختلف شعبوں میں مزید بہتری لانا ہے۔