Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوسٹل سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آبائی علاقے سے دستاویزات کی تصدیق کرانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے بابر علی گزشتہ دس سال سے اٹلی میں مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی شادی ہوئی اور اب وہ اٹلی میں رہتے ہوئے اپنی اہلیہ اور بچے کو اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں۔  
اس سلسلے میں انھوں نے اٹلی میں کاغذات بنوانا شروع کیے تو انھیں پاکستان سے بھی کچھ دستاویزات کی ضرورت پڑی۔ جن میں ان کے اپنے، اہلیہ اور بچے کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ، نکاح نامہ اور دیگر شامل تھے۔ ان کے بھائی نے مقامی یونین کونسل دفتر سے دستاویزات حاصل کیں اور انھیں بھیج دیں۔  
جب دستاویزات انھیں وہاں ملیں تو وہ قابل قبول نہیں تھیں کیونکہ اس کے لیے نہ صرف پاکستانی دفتر خارجہ سے تصدیق بلکہ اٹلی کے سفارت خانہ سے بھی تصدیق لازمی تھی۔ اس عمل کو انگریزی زبان میں لیگلائزیشن کہتے ہیں۔  
کورونا کے باعث اٹلی کے سفارت خانے نے ویزہ اور لیگلائزیشن کے لیے روزانہ کی بنیاد پر صرف چند افراد کو آنے کی اجازت اور وقت دینے کا سلسلہ گزشتہ دو برس سے شروع کر رکھا ہے۔ اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں امیدواران ایک عرصے سے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ بابر علی کی اہلیہ اور بچہ بھی اس انتظار میں ہیں کہ ان کو کب اٹلی سفارت خانہ سے کاغذات کی تصدیق کے لیے وقت ملے گا۔  
صرف بابر علی کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو ایک بار نہیں متعدد بار اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے کہ جب وہ اپنے سرکاری کاغذات کی تصدیق کے لیے یونین کونسل سے لے کر نوٹری پبلک تک، ثانوی تعلیمی بورڈ سے لے ہائیر ایجوکیشن کمیشن تک اور دفتر خارجہ سے لے کر متعلقہ ملک کے سفارت خانے تک سرکاری کاغذات کی تصدیق کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس سے وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہوتا ہے۔  
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اسی مشکل کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے عالمی سطح پر کوشش شروع کر رکھی تھی جسے بالآخر کامیابی ملی ہے اور پاکستان کا بین الاقوامی اپوسٹل کنونشن سے الحاق ہو گیا ہے۔ جس کے بعد لیگلائزیشن کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کو بھاری فیسیں ادا کر کے تصدیقی عمل کے لیے کئی دفاتر کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے۔ اب پاکستان بھر میں دفتر خارجہ کے منتخب شدہ نوٹریز سے دستایزات کی تصدیق کے بعد 122ممالک میں یہ تصدیق قابل قبول ہوگی۔ 

اپوسٹل کنونشن کیا ہے؟ 

عام طور پر ممالک ایک دوسرے کی سرکاری دستاویزات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے اس لیے کسی بھی قسم کے ویزہ اور دیگر امور کے لیے درکار دستاویزات کی تصدیق ضروری ہوتی ہے۔ یہ تصدیق ایک خاص ترتیب سے ہوتی ہے تاکہ کوئی بھی جعلی دستاویز تصدیق نہ کرا سکے۔ اسی لیے یہ عمل دستاویز جاری کرنے والے سے شروع ہو کر مختلف مراحل سے ہوتی ہوئی اس ملک کے سفارت خانے تک جاتی ہے جہاں کا ویزہ مطلوب ہوتا ہے۔  

اپوسٹل کی ایپ آنے کے بعد دستاویزات کی ویریفیکیشن میں مزید سہولت پیدا کی گئی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس سے جعل سازوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن اس عمل میں وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی طالب علم نے اپنی دو سندوں اور دو ڈگریوں کی تصدیق کرانی ہو تو اسے متعلقہ بورڈ، آئی بی سی سی اور ایچ ای سی سے تصدیقی عمل کے لیے کم از کم 16 ہزار روپے بطور فیس ادا کرنے ہوں گے۔ سفری اخراجات اور سفارت خانے سے تصدیق کی صورت میں فیس اس کے علاوہ ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔  
اس سارے عمل کو آسان بنانے کے لیے 1961 میں  ہیگ کانفرنس آن پرائیویٹ انٹرنیشنل لاء کے دوران ایک کنونشن پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد دستاویزات کی تصدیق کے عمل کو آسان بنانے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ اپوسٹل کے تحت رکن ملک اپنے ملک کے اندر ایک اتھارٹی مقرر کر دیتا ہے جو تمام سرکاری دستاویزات کی تصدیق کر دیتی ہے اور یہ تصدیق تمام رکن ممالک میں قابل قبول ہوتی ہے۔  
پاکستان کے دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق پاکستان کے اپوسٹل سے الحاق کے بعد ملک بھر میں نوٹری دفاتر مخصوص کیے جائیں گے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ان دفاتر میں جا کر اپنی دستاویزات کی تصدیق کروا سکیں گے۔  

اوورسیز پاکستانیوں کو کیا سہولت ملے گی؟  

عام طور پر جب بھی کسی اوورسیز پاکستانی کو اپنے ملک سے کسی قسم کی سرکاری دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنے خاندان کے افراد کے ذمے یہ کام لگاتے ہیں کہ متعلقہ دستاویزات کے حصول کے بعد مقامی دفاتر، دفتر خارجہ اور متعلقہ ملک کے سفارت خانے سے تصدیق  کر کے روانہ کریں۔ اس کے لیے بعض صورتوں میں وہ مختار نامہ بھی بنا کر بھیجتے ہیں اور تمام دستاویزات کو عموماً اس ملک کی اپنی زبان میں ترجمہ بھی کرانا پڑتا ہے جس میں غلطیوں کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے نہ صرف پیسے ضائع ہوتے ہیں بلکہ بار بار ایک ہی عمل کو دہرانا بھی پڑتا ہے۔   
اپوسٹل سے الحاق کے بعد ترجمہ کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ دستاویزات حاصل کرنے کے بعد مخصوص نوٹری دفتر سے رجوع کرنا ہوگا جو کاغذات کی تصدیق کرتے ہوئے ایک تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ جس میں تصدیق کی گئی ہوگی کہ متعلقہ دستاویز کس دفتر سے کسی افسر نے کس حیثیت میں جاری کی اور اس پر کس عہدے کی مہر ثبت ہے۔  

امریکہ، برطانیہ، بحرین، فرانس، اٹلی، جرمنی، ناروے اور پرتگال سمیت 122 ممالک میں مقیم پاکستانی اپوسٹل سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔  فائل فوٹو: اے ایف پی

دفتر خارجہ اور دیگر اداروں سے تصدیق کرائی گئی دستاویزات کی میعاد چھ ماہ تک ہوتی ہے۔ اگر چھ ماہ کے اندر ان دستاویزات کو استعمال میں نہ لایا جائے تو نئے سرے سے تصدیق کرانا پڑتی ہے۔ اپوسٹل کنونشن کے تحت متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے سرٹیفکیٹ کی معیاد ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔ تاہم اگر کسی دستاویز کے اوپر ختم ہونے کی معیاد درج ہوتو اس کو نئے سرے سے جاری کروا کر اپوسٹل تصدیق کروانا ہوگی۔  
اپوسٹل ویب سائٹ کے مطابق ماضی میں اپوسٹل ویریفکیشن کا نظام اور ریکارڈ دونوں کاغذات کے ذریعے ہی محفوظ بنائے جاتے تھے لیکن 2006 سے ای ایپ متعارف کرائی گئی ہے جس سے رکن ممالک کی اتھارٹیز مستفید ہوتے ہوئے تمام دستاویزات کو الیکٹرانک طریقے سے محفوظ بناتی ہیں اور ان کی ویریفکیشن بھی آسان ہوگئی ہے۔  
امریکہ، برطانیہ، بحرین، فرانس، اٹلی، جرمنی، ناروے اور پرتگال سمیت 122 ممالک میں مقیم پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔  

پاکستان میں اپوسٹل سسٹم کب شروع ہوگا؟  

وزیراعظم شہباز شریف کی سٹریٹیجک ریفارمز کے سربراہ سلمان صوفی کے مطابق پاکستان کی جانب سے اپوسٹل کنونشن کی توثیق کے بعد اب ہیگ کانفرنس آن پرائیویٹ انٹرنیشنل لاء کی کونسل آف جنرل افیئرز کی منظوری درکار ہے۔ اس کے بعد نوٹری دفاتر کا انتکاب ہوگا۔ اس میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے جس کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو یہ سہولت دستیاب ہو جائے گی اور ان کی مشکلات کا سدباب ہوسک

شیئر: