مکہ روٹ پروگرام نے بنگلہ دیشی عازمین حج کےلیے ’نیا افق‘ کھول دیا
مکہ روٹ پروگرام نے بنگلہ دیشی عازمین حج کےلیے ’نیا افق‘ کھول دیا
ہفتہ 2 جولائی 2022 23:37
امیگریشن کے عمل میں آسانی پیدا کی جا رہی ہے( فوٹو ایس پی اے)
بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پہنچنے والے دسیوں ہزارعازمین حج کو مملکت کے حکام کی جانب سے امیگریشن کے عمل میں آسانی پیدا کی جا رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق دارالحکومت ڈھاکہ کے شاہ جلال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر شروع کی جانے والی سروس کا مقصد مکہ جانے والے عازمین حج کو دستاویزات کے طریقہ کار کو ہموار کرتے ہوئے مدد دینا ہے۔
بنگلہ دیش ان پانچ مسلم اکثریتی ممالک میں شامل ہے جہاں سعودی عرب اپنے مکہ روٹ انیشیٹو کو چلا رہا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش بھی شامل ہیں۔
2019 میں شروع کیا گیا یہ پروگرام عازمین حج کے لیے وقف ہے جس سے وہ ویزا، کسٹمز اور صحت کے تمام تقاضوں کو ایئر پورٹ پر پورا کر سکتے ہیں اور مملکت پہنچنے پر طویل انتظار کے گھنٹوں کو بچا سکتے ہیں۔
ڈھاکا حج آفس کے ڈائریکٹر سیف الاسلام نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک نئی چیز ہے جس نے ایک نیا افق کھولا اور جس کے لیے ہم سعودی حکام کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجموعی طور پر 60 ہزار عازمین حج بنگلہ دیش سے سعودی عرب کا سفر کر سکیں گے۔‘
یہ تعداد 2019 میں بنگلہ دیش کو موصول ہونے والے کوٹے کا نصف ہے جو کہ کورونا کی وباسے پہلے آخری حج سیزن تھا تاہم اس سال مملکت پہنچنے والے عازمین حج کی مجموعی تعداد اتنی ہی ہے۔
2020 میں سعودی عرب میں رہنے والے صرف ایک ہزار افراد جب کہ 2021 میں 60 ہزار افراد تک سالانہ حج کو محدود کیا گیا تھا۔
کورونا کی وجہ عائد سفری پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد سعودی عرب رواں سال 10 لاکھ غیر ملکی اور ملکی عازمین حج کا خیرمقدم کرے گا جب کہ اس سے پہلے یہ تعداد 2.5 ملین تھی۔
ڈھاکا سے سعودی عرب جانے والے محمد مزمل حق کئی دہائیوں سے حج کی ادائیگی کا خواب دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’حج کی ادائیگی میرا زندگی بھر کا خواب تھا۔ ہم حج کے انتظامی نظام سے بہت خوش ہیں اور اب تک ان کا سفر بہت ہموار رہا ہے۔‘
تاجر یحییٰ ہلال نے کہا کہ عازمین حج اس بات سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی روانگی کا انتظام کیسے کیا گیا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے امیگریشن کی رسمی کارروائیوں کو بہت آسانی سے مکمل کیا ہے۔ سعودی امیگریشن کا حصہ بھی بہت کم وقت میں مکمل ہو جاتا ہے۔‘