لاپتہ افراد کیس: ’عدالتی حکم پر عمل نہ ہوا تو وزیراعظم پیش ہوں‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’یہ واضح ہے کہ موجودہ یا سابقہ حکومت نے لاپتہ افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں حکومت کو اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ اگر عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو وزیراعظم نو ستمبر کو عدالت میں پیش ہوں گے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور سابق و موجودہ وزرئے داخلہ ذاتی طور پر پیش نہ ہو سکے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ اجلاس ہو رہا ہے اور اٹارنی جنرل ہسپتال میں ہیں، ان کی استدعا ہے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’پھر وزیراعظم سے کہیں کہ عدالت کے سامنے آ کر یہ بیان دیں۔ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔‘
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل خود دلائل دینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر ویڈیو لنک پر آ جائیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق ’جے آئی ٹی اور کمیشن نے دو سگے بھائیوں کے کیس میں اسے جبری گمشدگی قرار دیا ہے۔‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’یہ واضح ہے کہ موجودہ یا سابقہ حکومت نے لاپتہ افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘
ارشد کیانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت کا تو پتہ نہیں اس حکومت نے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ کابینہ کے سینیئر اور متعلقہ لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
’باتیں سب کرتے ہیں عملاً کوئی کچھ نہیں کرتا۔ آئین کی کسی کو پرواہ نہیں تو لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت حکومت کو ایک موقعہ دے رہی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے معاملے ہر اپنے ٹھوس سیاسی عزم کا عملی اقدامات کے ذریعے مظاہرہ کرے۔ یہ آخری اور حتمی موقعہ دیا جا رہا ہے، اس سیاسی عزم کو عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کرنا ہو گا۔ ذمے داران کو برطرف کیا جائے۔
عدالت نے سماعت نو ستمبر تک ملتوی کر دی۔