Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی پنجاب کا الیکشن: تحریک انصاف جیت کر بھی ہار گئی

تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین نماز جمعہ پڑھنے کے بعد اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے بالآخر اپنا وزیر اعلٰی ایک مرتبہ پھر چن لیا ہے۔ اور قرعہ اب بھی حمزہ شہباز کے نام نکلا ہے، لیکن اس سے پہلے انہیں ایک اعصاب شکن صورت حال کا سامنا رہا۔
تحریک انصاف اور ق لیگ کے ارکان جن کی تعداد 186 تھی انہیں بسوں کے ذریعے لایا گیا۔ ایک بجے جب یہ بسیں پنجاب اسمبلی کی حدود میں داخل ہوئیں تو اراکین بظاہر مطمئن نظر آئے لیکن چہروں پر خاموشی بھی عیاں تھی۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین نماز جمعہ پڑھنے کے بعد اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گئے لیکن مسلم لیگ ن اور حکومتی ارکان مقررہ وقت سے لیٹ ہوگئے۔
لگ بھگ چار بجے جب ن لیگ کی بسیں آئیں تو ان کے چہروں سے خوشی ٹپک رہی تھی اور اراکین بسوں سے باہر نکلتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے۔
اسمبلی عمارت میں داخل ہونے کے بعد لیگی اور اتحادی ہال میں نہیں آئے اور نہ ہی ڈپٹی سپیکر آئے۔ یہ انتظار جب تین گھنٹے طویل ہوگیا تو اسمبلی کی عمارت افواہوں کا بازار بن گئی۔
ہر کوئی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق حالات کا تجزیہ کر رہا تھا۔ صحافی بھی معمول سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ سب تجزیوں میں ایک بات مشترک تھی کہ کہیں کچھ نہ کچھ پک رہا ہے، اور جب تک دیگ پک کر تیار نہیں ہو جائے اسمبلی کا اجلاس شروع نہیں ہوگا۔
اور پھر ایسا ہی ہوا، جیسے ہی چوہدری شجاعت کی طرف سے پارٹی صدر کی حیثیت سے اپنے ممبران کو خط لکھے جانے کی بازگشت آئی کہ ان کی پارٹی اراکین حمزہ شہباز کو ووٹ دیں تو اچانک اسمبلی کے ماحول میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
سکیورٹی اچانک بڑھا دی گئی اور سینکڑوں پولیس اہلکار سادہ کپڑوں میں اسمبلی کے گیٹس سے اندر داخل ہونا شروع ہوگئے۔
اس کے بعد اسمبلی کے تمام گیٹس کو تالے لگا دیے گئے۔ ڈپٹی سپیکر کے آنے سے پہلے لیگی اراکین ہال میں داخل ہونا شروع ہوئے۔
ڈپٹی سپیکر کی نشست کے گرد اچانک سکیورٹی بڑھا دی گئی۔ کئی درجن پولیس اہلکاروں کے جھرمٹ میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری جب ایوان میں داخل ہوئے تو ماحول کی سنجیدگی اپنے عروج پر تھی۔

چودھری شجاعت نے خط میں اپنے ارکان اسمبلی کو حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالنے کی ہدایت کی تھی (فوٹو: مسلم لیگ ق)

ایوان کی کارروائی بغیر کسی رکاوٹ کے شروع ہوئی تو مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے دو اراکین کو ووٹ نہ ڈالنے کے لیے پوائنٹ آف آرڈر پے سپیکر کو درخواست دی جو مسترد کر دی گئی۔
اسی دوران مغرب کی آذان ہوگئی تو اجلاس میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیا گیا۔ وزیر اعلٰی حمزہ شہباز نے اپنی امامت میں چند اراکین کو نماز پڑھائی۔
اجلاس کی کارروائی کو دوبارہ آغاز ہوا تو ووٹ ڈالنے کا عمل شروع کردیا گیا۔ تقریباً دو گھنٹوں تک یہ عمل جاری رہا۔ جیسے ہی تمام اراکین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کر لیا تو سب سے اہم مرحلہ شروع ہوا۔
ایوان میں مکمل خاموشی تھی۔ ہال میں نصب گھڑیال کی ٹک ٹک بھی سنائی دینے لگی۔ ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ تحریک انصاف اور ق لیگ کے اراکین کے چہروں پر بلا کی سنجیدگی تھی۔
ڈپٹی سپیکر نے گذشتہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو سکیورٹی حصار قائم کیا ہوا تھا وہ بھی کچھ زیادہ ہی لگ رہا تھا کیونکہ اپوزیشن بینچوں سے چُوں کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔
ڈپٹی سپیکر نے جیسے ہی نتائج کا اعلان کیا تو بظاہر اپوزیشن کے ووٹ 186 تھے اور حکومت کے 179، لیکن ساتھ ہی جب دوست محمد مزاری نے یہ رولنگ دی کہ ان کے پاس پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا اپنے پارٹی اراکین کے نام ایک حکم نامہ آیا ہے۔

ڈپٹی سپیکر نے جو سکیورٹی حصار قائم کیا ہوا تھا وہ بھی کچھ زیادہ ہی لگ رہا تھا (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

ان کے مطابق ’حکم نامے میں چوہدری شجاعت حسین نے ہدایت کی ہے کہ ان کی پارٹی حمزہ شہباز کو ووٹ دے گی‘، اس پر لیگی بینچوں سے واشگاف نعرے شروع ہو گئے۔
ڈپٹی سپیکر نے اپنی رولنگ میں جب کہا کہ ق لیگ کے اراکین نے اپنے صدر کی ہدایت کے برعکس پرویز الٰہی کو ووٹ دیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ ووٹ مسترد کیے جاتے ہیں۔
’لٰہذا حمزہ شہباز منتخب امیدوار ہیں کیونکہ اب ان کے ووٹوں تعداد تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ 10 ووٹ ختم کرنے بعد تحریک انصاف کے ووٹوں کی تعداد ایک 176 بنتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی لیگی اراکین نے حمزہ شہباز کو کندھوں پر بٹھا لیا اور نعروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک سینیئر صحافی خالد قیوم جو دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی سیاست کو کور کرتے ہیں ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ’آج زرداری نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کو آکسیجن فراہم کردی ہے۔‘
خیال رہے کہ وزیر اعلٰی پنجاب کے انتخاب سے قبل آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت سے ایک ہفتے میں چار ملاقاتیں کیں۔
سیاسی مبصرین پنجاب میں وزارت اعلٰی کی اس چومکھی لڑائی میں آصف زرداری کی جوڑ توڑ کی صلاحیت کو کریڈٹ دے رہے ہیں۔

شیئر: