Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حمزہ شہباز وزیراعلٰی پنجاب برقرار، فیصلے کے خلاف پرویز الٰہی سپریم کورٹ پہنچ گئے

پنجاب اسمبلی میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے مطابق چودھری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے۔
تاہم ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے چودھری شجاعت کے خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد کر دیے جس کے بعد پرویز الٰہی کے ووٹوں کی تعداد 176 جبکہ حمزہ شہباز کے ووٹوں کی تعداد 179 ہوگئی۔
مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو تین ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار دے دیا گیا اور وہ وزیراعلٰی پنجاب کے عہدے پر برقرار رہیں گے جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا۔
بعد ازاں جمعے کی رات گئے پرویز الٰہی کی جانب سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کردی گئی۔
عامر سعید ران ایڈووکیٹ نے چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے درخواست دائر کی۔ ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ اعجاز گورایہ نے درخواست وصول کی۔
اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے ارکان پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کی قیادت میں سپریم کورٹ رجسٹری لاہور کے باہر پہنچے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’میں ووٹنگ میں منتخب ہوا لیکن فیصلہ میرے خلاف دے دیا گیا۔‘
’پنجاب اسمبلی میں ہماری اکثریت تھی، ڈپٹی سپیکر نے توہین عدالت کی، اُن پر آرٹیکل 6 لگتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے آج بھی پولیس بلائی ہوئی تھی، انہوں ںے پہلے بھی ہمارے ارکان پر تشدد کرایا تھا۔‘
ایک سوال پر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ارکان کو چودھری شجاعت کے خط کا پتا ہی نہیں تھا۔‘
ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف تحریک انصاف کے مظاہرے
دوسری جانب ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف تحریک انصاف نے جمعے کی رات گئے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے لاہور، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، سیالکوٹ، ملتان اور فیصل آباد سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔ 
کارکنوں نے مختلف جگہوں پر ٹائر نذر آتش کیے اور حکومت، ڈپٹی سپیکر اور آصف زرداری کے خلاف نعرے بازی کی۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس جمعے کو تین گھنٹے کی تاخیر سے شام 7 بجے شروع ہوا۔

پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’ ڈپٹی سپیکر نے توہین عدالت کی، اُن پر آرٹیکل 6 لگتا ہے‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

اچانک چودھری شجاعت کا خط منظرعام پر آگیا
اجلاس کے دوران مقامی میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین کی جانب سے اپنے ارکان پنجاب اسمبلی کو ایک خط لکھا گیا ہے جس کے مطابق انہوں نے اپنے ارکان کو ہدایت کی کہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
تاہم پنجاب اسمبلی میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے عمل میں مسلم لیگ ق کے 10 ارکان نے اپنا ووٹ چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ڈالا۔
اس سے قبل پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے ایک بیان میں کہا کہ ’چودھری شجاعت حسین کے خط سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارے پاس مسلم ق کی پارلیمانی پارٹی کی واضح ہدایت موجود ہے۔‘
’مسلم لیگ کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پرویز الٰہی کو وزارت اعلٰی کا امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔‘
مقامی میڈیا کے مطابق مونس الٰہی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’پارٹی صدر چودھری شجاعت حسین نے عمران خان کے امیدوار کی حمایت کرنے سے انکار کرتے ہوئے پرویز الٰہی کی حمایت میں ویڈیو بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کردیا ہے۔‘

پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران چودھری شجاعت کا خط موضوع بحث رہا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’آصف علی زرداری نے چودھری شجاعت حسین سے کہا ہے کہ پرویز الٰہی ہمارے اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ امیدوار ہوں گے اور انہیں وزیراعلٰی بنا دیا جائے گا۔‘
اس صورت حال پر چودھری شجاعت کے بھتیجے اور چودھری وجاہت کے صاحبزادے چودھری حسین الٰہی کا ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اگر آصف زرداری اور چودھری شجاعت لڑائی چاہتے ہیں تو ہم ان سے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم عمران خان اور پاکستان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔‘
اس سے قبل اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کے کارکن بڑی تعداد میں پنجاب اسمبلی کے باہر پہنچ گئے جس کے بعد وہاں سکیورٹی سخت کردی گئی۔
جب ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اجلاس شروع کرنے میں تاخیر ہوئی تو تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے اسے  سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’وکلا کو توہین عدالت کی کارروائی کے لیے کہہ دیا ہے، اب سے کچھ دیر بعد ڈپٹی سپیکر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جارہی ہے۔‘
یاد رہے کہ تکینکی اعتبار سے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے ہونے والا یہ مقابلہ رن آف الیکشن تھا۔ یعنی آئین میں درج کیے گئے طریقہ کار کے مطابق الیکشن کا ایک مرحلہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے اس لیے کسی بھی امیدوار کے لیے یہ قدغن اب نہیں تھی کہ وہ 186 ووٹ ہی حاصل کرے۔  
واضح رہے کہ جمعرات کو پنجاب کے وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’تحریک انصاف کے کئی اراکین پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے اور اس بات کا ان کی جماعت کو علم ہے۔‘
’ہم کسی کو نہیں خرید رہے، میں نے تو ان الزامات پر فواد چوہدری کو قانونی نوٹس بھی بھیج دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین خود پرویز الٰہی کو ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے۔ ہمارا ایک بھی رکن لاپتا نہیں ہے اور آج کے الیکشن میں ہم ہی جیتیں گے اور وزیر اعلٰی حمزہ شہباز ہی رہیں گے۔‘ 
پاکستان کی سیاست پر دور رس اثرات کی حامل پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، اور اسمبلی میں کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
 

الیکشن سے قبل آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین سے متعدد ملاقاتیں کیں (فوٹو: مسلم لیگ ق)

تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’ہمارے تمام اراکین ہوٹل میں موجود ہیں اور ہمارے نمبرز پورے ہیں، تاہم ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ ہمارے لوگوں کو اغوا کیا جائے گا اور لوگوں کو اسمبلی تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کی جائے گی۔‘
’اگر ایسا ہوا تو ہم اس بات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ اگر ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا تو یہ کسی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔‘
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے دو اراکین پنجاب اسمبلی میاں جلیل شرقپوری اور فیصل نیازی پہلے ہی استعفی دے چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رکن چوہدری مسعود بھی مستعفی ہوچکے ہیں، تاہم تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے الزام لگایا کہ ’ان کے رکن کو 40 کروڑ روپے دے کر خریدا گیا۔‘
دوسری طرف الیکشن سے ایک رات قبل آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت سے طویل ملاقات کی۔ یہ ایک ہفتے میں ان کی چوہدری شجاعت سے دوسری ملاقات تھی۔  
یاد رہے کہ 17 جولائی کو منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 20 میں سے 15 نشستیں جیتیں جبکہ ن لیگ چار سیٹوں پر کامیاب ہوئی اور ایک نشست آزاد امیدوار  نے حاصل کی تھی۔

شیئر: