ایوان صدر نے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے بھی بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آرمی چیف کا تقرر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے اور تمام متعلقہ اداروں اور آفسز نے اس کی باضابطہ منظوری دی ہو تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔‘
اس سے قبل مقامی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ منگل کو ایوان صدر اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کا تقرر وقت سے پہلے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘
صدر مملکت سے سوال کیا گیا تھا کہ آرمی چیف کا تقرر نومبر میں ہونا ہے، کیا یہ تقرر وقت سے پہلے ہوسکتا ہے؟ مقامی میڈیا کے مطابق اس پر انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں آرمی چیف کا تقرر وقت سے پہلے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘
صحافیوں سے گفتگو میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ’بطور صدر مملکت میری پاس یہ اختیار نہیں کہ میں کسی سے کہوں کہ مذاکرات کرو۔ ملک کا حل صدارتی نہیں بلکہ جمہوری نظام میں ہے۔‘
’یہ تاثر غلط ہے کہ میرے وزیراعظم سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے بھیجی جانے والی 74 میں سے 69 سمریاں فوری واپس بھجوائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گورنر پنجاب والی سمری میں گنجائش تھی اس لیے اسے روکا، اوورسیز پاکستانیوں کی ووٹنگ، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور نیب قوانین میں ترامیم کے بل بھی واپس بھجوائے۔ ‘
ایک سوال پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کے خواہاں ہیں، امریکہ بھی پاکستان سے تعلقات ختم نہیں کرنا چاہتا، بلاول بھٹو زرداری نے امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔‘
عمران خان سے رابطے کے حوالے سے ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیراعظم سے ان کی آخری مرتبہ بات گورنر پنجاب کے تقرر کے معاملے پر ہوئی تھی، ان سے واٹس ایپ پر رابطہ ہوتا ہے۔‘
ایک سوال پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’میں ذاتی حیثیت میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے لیے واضح مینڈیٹ بہت ضروری ہے، جس نے بھی غداری کی ہے اس پر آرٹیکل 6 ضرور لگایا جائے، میں نے نہ آئین توڑا ہے اور نہ ہی غداری کی ہے۔‘