اسرائیلی فوج کی ریڈ کے دوران ہلاک ہونے والی فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے اہل خانہ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پر اسرائیل سے جواب طلب کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے لیکن امریکی انتظامیہ نے تحقیقات کرنے کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو امریکی وزیر خارجہ نے شیرین ابو عاقلہ کے رشتہ داروں کو ملاقات کے لیے واشنگٹن بلایا تھا۔
شیرین ابو عاقلہ کے اہل خانہ نے رواں مہینے کے آغاز میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملنے کی کوشش کی تھی جو ممکن نہ ہو سکا تھا۔
مزید پڑھیں
-
فلسطینی صحافی کی موت کا باعث بننے والی گولی کا فرانزکNode ID: 682771
واضح رہے شیرین ابو عاقلہ الجزیرہ کی رپورٹر تھیں جو رواں برس 11 مئی کو مغربی کنارے میں ایک اسرائیلی ریڈ کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں۔
انٹونی بلنکن سے تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے باہر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مقتول صحافی کی 27 سالہ بھتیجی لینیٰ ابو عاقلہ نے کہا کہ ’ہم شیرین کے لیے احتساب اور انصاف کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔‘
’اگر شیرین کے قتل کا احتساب نہیں ہوتا تو یہ ایک طرح سے دوسری حکومتوں کے لیے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کا اشارہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انٹونی بلنکن نے شفافیت کی کمی کے بارے میں خاندان کے خدشات کو تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ (باہمی) بات چیت کے لیے ایک بہتر ذریعہ قائم جائے گا۔
لینیٰ ابو عاقلہ کے مطابق ’انہوں نے (انٹونی بلنکن) معروف فلسطینی صحافی، جن کے پاس امریکی شہریت بھی تھی، کی موت کی آزادانہ امریکی تحقیقات کے لیے خاندان کے مطالبات پر کوئی وعدہ نہیں کیا۔‘
امریکہ نے چار جولائی کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ ممکنہ طور پر شیرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج کی جانب سے گولی ماری گئی تھی لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان کا قتل جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ گولی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ حتمی نتائج نہیں مل سکیں۔
مقتول صحافی کے خاندان نے اس بیان کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا، جو اسرائیل اور فلسطینیوں کی الگ الگ تحقیقات کے امریکی جائزوں پر مبنی تھا۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے شیرین ابو عاقلہ کے خاندان سے ملاقات کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ابو عاقلہ کی بے خوف صحافت کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں عزت تھی۔‘
Today I met with the family of slain Palestinian-American journalist Shireen Abu Akleh, whose fearless journalism earned her the respect of audiences around the world. I expressed my deepest condolences and commitment to pursue accountability for her tragic killing. pic.twitter.com/zJL4zR6l2E
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) July 27, 2022