Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استعفوں کی مرحلہ وار منظوری، درخواست سماعت کے لیے مقرر

اسد عمر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سیاسی فریق بن چکا ہے (فوٹو: پی ٹی آئی)
پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہے۔ 
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق درخواست پر سماعت کریں گے۔
رجسٹرار آفس نے تحریک انصاف کی درخواست کو اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعتراض عائد کر دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے پیر کو سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست میں اتھارٹی لیٹر نہ ہونے کا اعتراض عائد کیا۔
واضح رہے کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے جنرل سکریٹری اسد عمر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کو یہ درخواست دائر کی تھی۔
پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ ’عدالت الیکشن کمیشن کو تمام 123 ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی ہدایت کرے۔ الیکشن کمیشن کو تمام نشستیں ایک ساتھ خالی قرار دینے کا حکم دیا جائے۔‘
’حکومتی فائدے کے لیے الیکشن کمیشن ٹکڑوں میں نشستیں خالی نہیں کر سکتا۔عدالت قرار دے کہ موجودہ سپیکر منظور ہو چکے استعفوں کو التوا میں رکھنے کا اختیار نہیں رکھتے۔‘
درخواست دائر کرنے کے بعد اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس کون سا اختیار ہے کہ کچھ استعفے منظور کرے، پی ٹی آئی سازش کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی، اس لیے استعفے دیے گئے تھے۔‘
انہوں نے الیکشن کمیشن پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’وہ ویسے بھی پی ڈی ایم کا حصہ بن چکا ہے اب اس کو باقاعدہ طور پر انتخابی نشان کا اعلان بھی کر دینا چاہیے۔‘
اسد عمر نے الیکشن کمیشن کو جانبدار قرار دیتے ہوئے کہا ’یہ صرف ہماری رائے نہیں، دو اسمبلیوں میں قراردادیں آ چکی ہیں کہ یہ اب سیاسی فریق بن چکا ہے جو ناقابل قبول ہے۔‘
 اسد عمر نے ایک بار پھر عزم دوہراتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے۔
درخواست دینے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ’سازش کے ذریعے مرضی کے استعفے منظور کیے گئے۔‘
انہوں نے الیکشن کمشن کو تنقید کا نشانہ بناتے اور سیاسی فریق قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو اب انتخابی نشان رجسٹر کروا لینا چاہیے۔
اسد عمر نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے مشورہ مانگا کہ وہ الیکشن کمیشن کو تجویز کریں کہ اس کو کون سا انتخابی نشان رکھنا چاہیے۔
اسد عمر نے دعوٰی کہا کہ عدالت پہلے بھی الیکشن کمیشن کے کئی فیصلے مسترد کر چکی ہے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ نئے الیکشن اور مینیڈیٹ کی طرف بڑھا جائے۔
’قوم فیصلہ کرے کہ اقتدار کس کے پاس ہو گا۔‘
واضح رہے ‏الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دو روز قبل پی ٹی آئی کے 11 ارکان قومی اسمبلی کو ڈی نوٹی فائی کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے نوٹی فیکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفوں کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان ان ارکان قومی اسمبلی کو فوری طور پر ڈی نوٹی فائی کرتا ہے۔‘
پی ٹی آئی کے جن اراکین اسمبلی کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا تھا ان میں این اے 22 مردان سے علی محمد خان، این اے 24 چارسدہ سے فضل محمد خان، این اے 31 پشاور سے شوکت علی، این اے 45 کُرم ایک سے فخر زمان خان اور این اے 108 فیصل آباد سے فرخ حبیب شامل ہیں۔
این اے 118 سے بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اعجاز احمد شاہ، این اے 237 ملیر کراچی سے جمیل احمد خان، این اے 239 کورنگی کراچی سے محمد اکرم چیمہ، این اے 246 کراچی جنوبی سے عبدالشکور شاد کو بھی ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے ان کی نشستوں کو خالی قرار دے دیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان کو بھی ڈی نوٹی فائی کیا گیا تھا۔

شیئر: