غیرملکی کوہ پیماؤں کی ریکارڈ تعداد، پاکستان آمد کیسے ممکن ہوئی؟
غیرملکی کوہ پیماؤں کی ریکارڈ تعداد، پاکستان آمد کیسے ممکن ہوئی؟
پیر 8 اگست 2022 5:41
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
غیرملکی کوہ پیماؤں کے ایک گروپ کے لیے اجازت نامے کی فیس 12 ہزار ڈالر ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
رواں برس تاریخ کے سب سے زیادہ غیرملکی کوہ پیما پاکستان کی بلند پہاڑی چوٹیاں سر کرنے کے لیے آئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت کے مطابق ’اس سال ایک ہزار 700 غیرملکی کوہ پیماؤں کو پرمٹ جاری کیا گیا ہے جس میں سے 16 سو کوہ پیما اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جبکہ کچھ دیگر آئندہ چند روز میں یہاں پہنچ جائیں گے۔
علاوہ ازیں سو سے زائد مقامی کوہ پیما بھی ملک میں موجود بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کے لیے اس وقت شمالی علاقہ جات موجود ہیں۔
گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’رواں برس کے ٹو کے لیے 208، براڈ پیک کے لیے 200، جی ٹو کے لیے 72، نانگا پربت کے لیے 51 اور سپانٹنک کے لیے 35 غیرملکی کوہ پیماؤں کو اجازت دی گئی ہے جبکہ ان کے علاوہ 17 دیگر چوٹیاں سر کرنے کے لیے بھی کئی کوہ پیماؤں کو پرمٹ دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مختلف ممالک سے آنے والے گروپس میں خواتین کوہ پیماؤں کی تعداد 150 سے زائد ہے جس میں سے کئی خواتین نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کر لی ہے۔‘
ساجد حسین نے بتایا کہ ’غیرملکی کوہ پیماؤں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے رواں سال 4 ہزار سے زائد مقامی پورٹرز کو بھی ہائیر کیا گیا ہے۔‘
پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے کو فروغ پانے کی وجوہات کیا ہیں؟
الپائن کلب کے سیکرٹری کرار حیدری نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں رواں برس ریکارڈ کوہ پیماوٌں کی آمد کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم آن لائن ویزے کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ آن لائن ویزے کی سہولت کے باعث غیرملکی کوہ پیماؤں کو درپیش مسائل تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہونا بھی غیرملکی سیاحوں کی پاکستان آمد کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کا کریڈیٹ ہماری تمام سکیورٹی ایجینسیوں کو جاتا ہے۔‘
کرار حیدری کے مطابق ’کورونا کے بعد فضائی آپریشن بحال ہونا بھی سیاحت اور کوہ پیمائی کو فروغ دینے میں مددگار ہوا ہے۔‘
پاکستان کی بلند پہاڑی چوٹیاں سر کرنے کا اجازت نامہ کیسے ملتا ہے؟
ساجد حسین کے مطابق ’آن لائن ویزے میں ٹریکنگ اور کوہ پیمائی ویزہ کیٹیگری متعارف ہوگیا ہے جس سے غیرملکی کوہ پیما گھر بیٹھے ویزے کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں۔ ویزہ ملنے کے بعد پاکستان پہنچنے کے بعد پرمٹ دے دیا جاتا ہے۔‘ تاہم انفرادی طور پر کسی کوہ پیما کو پرمٹ نہیں دیا جاتا، صرف لائسنس ہولڈرز کمپنیز کے ساتھ جانے والے کوہ پیماؤں کو پرمٹ دیا جاتا ہے۔
مقامی کوہ پیماؤں کے لیے ٹرویل کمپنیز کا گائیڈ ساتھ ہونا اور انشورنس ہونا ضروری ہے تاہم ریسکیو کے لیے شورٹی بانڈز دینا ضروری نہیں ہے۔
غیرملکی کوہ پیماؤں کے ایک گروپ کے لیے اجازت نامے کی فیس 12 ہزار ڈالرز ہے اور ڈسکاؤنٹ پیکج میں 7200 ڈالرز رکھی گئی ہے۔ گروپ میں سات افراد شامل ہوتے ہیں۔ سات سے کم لوگوں کو بھی ایک گروپ کی فیس دینا لازم ہے جبکہ مقامی کوہ پیماؤں کے لیے ٹریکنگ کی فیس 5 ہزار ہے اور کے ٹو کے لیے 30 ہزار روپے ہے۔
کوہ پیماؤں کے حفاظتی اقدامات کے لیے کیا ضروری ہے؟
محکمہ سیاحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد حسین کے مطابق ’کسی بھی کوہ پیما کے ساتھ جانے والے ہیلپرز اور پورٹرز کی انشورنس کی جاتی ہے اور انشورنس کے بغیر کسی بھی پورٹر کو پہاڑوں پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس کے علاوہ 6 ہزار میٹر سے زائد بلند چوٹی سر کرنے والے کوہ پیماؤں کے لیے لازم ہے کہ وہ شورٹی بانڈز جمع کروائیں۔ کسی حادثے کی صورت میں آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر صرف اسی صورت میں ریسکیو کرتے ہیں جب شورٹی بانڈ موجود ہو۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر 7 لاکھ روپے کے شورٹی بانڈز جمع کروائے جاتے ہیں جبکہ اس کے اخراجات کا بل ریسکیو آپریشن میں ہیلی کاپٹر کی فلائٹس کی تعداد کے حساب سے بنتا ہے۔‘
کوہ پیمائی کو مزید فروغ دینے والے مجوزہ اقدامات
الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری اس حوالے سے بتاتے ہیں ’رواں برس ریکارڈ تعداد میں کوہ پیماؤں کی پاکستان آمد سے ٹرانسپورٹ، ہوٹل انڈسٹری، مقامی پورٹرز کے کافی زیاہ فائدہ ہوا ہے اور اس سے ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شمالی علاقوں میں سیاحت اور ایڈونچر سپورٹس کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سکردو میں بین الاقوامی ایئر پورٹ پر کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ اگر بین الاقوامی پروازوں کے لیے کھول دیا جائے تو غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شمالی علاقوں کا رخ کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘غیرملکی کوہ پیما زیادہ تر نیپال جاتے ہیں اور اگر وہاں سے براہ راست پروازیں شروع ہوں تو نیپال اور پاکستان دونوں ممالک میں موجود بلند چوٹیوں کی طرف آنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔‘