حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ لوگ بھی ٹانگ اڑارہے ہیں جنہیں نہ تو شریعت کا کوئی علم ہے اور نہ ہی وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں
معصوم مرادآبادی
قومی ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں ہونے والے دھواں دھار مباحثوں کو دیکھ کر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں سب سے سنگین اور توجہ طلب مسئلہ طلاق ثلاثہ یعنی ایک مجلس میں دی جانے والی3 طلاق کا ہے،جسے فوری طورپر اسلامی شریعت سے خارج کرنا ضروری ہے۔ اگر طلاق ثلاثہ کو اسلامی شریعت سے خارج نہیں کیاگیا تو نہ صرف اس سے ملک کی ترقی رک جائے گی بلکہ مسلمان بھی کہیں کے نہیں رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی نہ صرف اس موضوع پر اظہار خیال کررہا ہے بلکہ دوقدم آگے بڑھ کر مسلمانوں کو مطعون بھی کررہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ لوگ بھی ٹانگ اڑارہے ہیں جنہیں نہ تو شریعت کا کوئی علم ہے اور نہ ہی وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ تین طلاق کے معاملہ میں دخل دینے والے کچھ سیاسی لوگوں کے دلائل سن کر یوں لگتا ہے کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھے ہیں۔ مثال کے طورپر اترپردیش کے نوخیز وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی علمیت ، تاریخ دانی اور معلومات کا بھانڈا یہ کہہ کر پھوڑ دیا ہے کہ انہیں 3 طلاق کے مسئلے میں دروپدی کے چیرہرن (بے لباسی) کی یاد آتی ہے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک تقریب کے دوران یہ گل فشانی کی کہ طلاق کے مسئلے پر کچھ لوگوں کی خاموشی دیکھ کر مجھے ’’مہابھارت‘‘کی وہ مجلس یاد آتی ہے جب دروپدی کا چیرہرن ہورہا تھا تو اس بھرے اجلاس میں دروپدی نے پوچھا تھا کہ آخر اس پاپ کا مجرم کون ہے؟ تولوگوں نے کہاتھا کہ وہ لوگ جو اس مسئلے پر خاموش ہیں۔ یوگی نے کہاکہ مجھے لگتا ہے کہ ملک کی سیاست کے افق پر بیٹھے ہوئے لوگ طلاق کے مسئلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘یوگی کی اس بے تکی اور بے ہودہ دلیل کو علمائے کرام نے اسلام کی توہین قرار دے کر خارج کردیا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس مسئلے پر ملک میں ہر شخص زبان کھولنا اپنا فرض سمجھ رہا ہے اس کے بارے میں یوگی جی کو یوں محسوس ہورہا ہے کہ لوگ اس معاملے میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 3 طلاق کا مسئلہ اس ملک میں دراصل مسلمانوں کو مطعون کرنے اور انہیں سیاسی اور سماجی طورپر الگ تھلگ کرنے کے لئے پیدا کیاگیا ہے۔ طلاق ثلاثہ کی آڑ میں اسلامی شریعت کو نشانہ بنانے اور مسلم معاشرے کو عورتوں کا دشمن ثابت کرنے کے لئے ایک زوردار پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔ اس مہم کو ہوادینے والے لوگ مسلم خواتین کی ہمدردی کا چولا پہن کر میدان میں آئے ہیں۔ہرچند کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے لکھنؤ اجلاس میں تاخیر سے ہی صحیح طلاق ثلاثہ کو ناپسندیدہ عمل تسلیم کرلیا ہے اور ایک ساتھ3 طلاق دینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس موضوع پر بحث تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ خود وزیراعظم نریندرمودی نے اس سلسلے میں مسلم خواتین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی کارکنوں کو اس موضوع پر ضلعی سطح پر کام کرنے کی ضرورت بتائی ہے۔ انہوں نے بھونیشور میں بی جے پی اجلاس کے دوران کہاکہ ’’مسلم بہنیں تکلیف میں ہیں۔
انہیں انصاف ملنا چاہئے۔ 3 طلاق پر مسلمانوں میں تنازع نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ بی جے پی کارکنان اس معاملے میں لوگوں کے درمیان جاکر مباحثے اور سیمینار منعقد کریں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کو طلاق ثلاثہ کے معاملے میں مسلم خواتین کی تکلیف تو نظرآتی ہے لیکن انہیں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ظلم وبربریت اور اجتماعی آبروریزی کی شکار ہونے والی مسلم خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ 2013میں مظفرنگر فسادات کے دوران درجنوں مسلم خواتین کو بے عزت کیاگیا تھا اور ان معاملوں میں باقاعدہ نامزد رپورٹیں بھی درج ہوئی تھیں ، لیکن آج تک مظفرنگر کے مجرم آزاد ہیں۔ خود وزیراعظم نریندرمودی کی ریاست میں 2002کی نسل کشی کے دوران جو کچھ ہوا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مقتول سابق ممبرپارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری آج بھی ایسی سیکڑوں مسلم خواتین کا مقدمہ لڑرہی ہیں جنہیں بدترین درندگی کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی آڑ میں اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لاء کو بنایا جارہا ہے تاکہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی راہیں ہموار کی جائیں۔ حالانکہ کثیر مذاہب، عقیدوں اور رسم ورواج کی موجودگی میں اس ملک کے اندر یکساں سول کوڈ کا نفاذ ممکن ہی نہیں ہے اور حکومت باربار کے مطالبات کے باوجود یکساں سول کوڈ کا مسودہ پیش کرنے سے کترارہی ہے لیکن وہ مسلمانوں کے سرپر یکساں سول کوڈ کی تلوار لٹکاکر انہیں مسلسل خوف وہراس میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ طلاق ثلاثہ کے حوالے سے مسلمانوںکو مطعون کررہے ہیں لیکن ان کی نگاہ میں ملک میں موجود چارکروڑ سے زیادہ ان بیوہ عورتوں پر نہیں جو انتہائی تکلیف دہ زندگی بسرکررہی ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک میں 4.3کروڑ بیوہ خواتین ہیں جن میں سے بیشتر ہندو ہیں۔ 20لاکھ ہندوعورتیں شوہر کے بغیر زندگی گزاررہی ہیں۔اعدادوشمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پورے ملک میں طلاق کی شرح سب سے کم مسلمانوں میں ہے لیکن اس کے باوجود طلاق کے حوالے سے صرف مسلم معاشرے کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کا معاملہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ اس سلسلے میں طلاق ثلاثہ کے علاوہ نکاح حلالہ اور تعدد ازدواج کے آئینی یا غیر آئینی ہونے پر بحث مرکوز ہے۔ اس موضوع پر سپریم کورٹ کی آئینی بینچ آئندہ 11مئی کو سماعت کرنے والی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت نے 2015ء میں اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے یہ کہاتھا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مسلم خواتین کو حقوق سے محروم تو نہیں کیاجارہا ہے۔ یہ مقدمہ شروع ہونے کے بعد کئی ایسی مسلم خواتین بھی طلاق ثلاثہ کے خلاف عدالت پہنچ گئی ہیں جنہیں انکے شوہروں نے 3 طلاق دے کر گھروں سے نکال دیا ہے۔ ان خواتین کی پشت پر ایسے وکیل مفت پیروی کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں جو اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کے طرف دار ہیں۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے۔اس میں کہاگیا ہے کہ تین طلاق ، نکاح حلالہ اور تعدادازدواج کااسلام میں رواج نہیں ہے اور طلاق ثلاثہ خواتین کے وقار کے منافی ہے۔ مرکز نے یہ بھی کہاہے کہ کئی مسلم ملکوں میں اس بارے میں بڑی اصلاحات ہوچکی ہیں جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے حلف نامے میں یہ واضح کردیا ہے کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین آسمانی کتاب سے ماخوذ ہیں جس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی ضمانت ہندوستانی آئین میں دی گئی ہے۔