سیاست میں استحکام لکھے ہوئے قاعدے قوانین سے زیادہ غیرتحریری روایات کی پاسداری سے آتا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے کل اپنے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی منائی ہے، سالگرہ والے دن مایوسی اور منفی سوچوں سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر سالگرہ ملک کی ہو تو موقع اور بھی خوشی اور مسرت کا ہوتا ہے۔
یہ موقع بھی خوشی اور تجدید عہد کا ہے۔ ہندوستان سے انگریز کا جانا مشکل مرحلہ تھا مگر ہندوستان میں سے ایک علیحدہ ملک کا وجود میں آنا ایک انہونی سے کم نہ تھا۔ بلاشبہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی سیاسی بصیرت اور قوم کی قربانیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
سیاست اور سیاست دانوں نے ہی ملک بنایا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کانگریس دونوں سے بیک وقت مقابلہ کیا۔ وسیع و عریض برصغیر کے چپے چپے میں تحریک چلائی۔ لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کی آباد کاری کی۔ وسائل سے محروم ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ بیرونی اور اندرونی دو طرفہ محاذوں پر نبرد آزما رہے۔ بلا شبہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا سہرا سیاست دانوں کی اس بے لوث نسل کےسر ہے جو کسی صلے سے بے پروا ہو کر اپنے مقصد سے مخلص تھے۔
آج کے دن دیکھیں تو سیاست اور اہل سیاست کے چلن مختلف ہیں۔
ملک کی سیاست عدم استحکام سے عبارت ہے۔ ماضی تلخ ہے اور مستقبل غیر یقینی۔ تلخیاں ایسی ہیں کہ سیاسی حریف آپس میں متحارب گروہوں کی طرح برسر پیکار ہیں۔ غیر یقینی صورتحال ایسی کہ معیشت کو بھی متاثر کر چکی ہے۔ ملک کی معاشی حالت دیکھیں تو طرح طرح کے وسوسے گردش کر رہے ہیں۔
ہر طرف ایک ہیجان اور اضطراب ہے اور یہ صورتحال چند ہفتوں اور مہینوں کی نہیں بلکہ کچھ برسوں سے مسلسل خرابی کی طرف جا رہی تھی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ بے چینی کا یہ دور پہلی دفعہ آیا ہے۔ اس سے پیشتر بھی ہر دہائی میں کم از کم ایک دفعہ ایسا بحران ضرور آتا ہے جس سے سیاسی استحکام اور توازن خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
سیاست میں استحکام لکھے ہوئے قاعدے قوانین سے زیادہ غیرتحریری روایات کی پاسداری سے آتا ہے۔ اگر روایات کا پاس نہ تو امریکہ جیسے ملک میں بھی پارلیمان پر حملہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کچھ تو جمہوری روایات کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکا اور رہی سہی کسر مارشل لاؤں نے نکال دی۔ آج بھی سول ملٹری توازن ہمارے ہاں ایک مسئلہ اور ایک چیلنج ہے۔ زیادہ تر توانائی اور وقت یہی توازن برقرار رکھنے میں لگ جاتا ہے۔
پچھتر سال بعد بھی سیاسی انجینیئرنگ اور نئے نئے سیاسی تجربات کا ذکر بھرپور طریقے سے جاری ہے۔
پچھتر سال بعد بھی یہ طے نہیں ہو سکا سیاست کہاں پہ ختم ہوتی ہے اور ملکی سلامتی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم دنیا میں کوئی منفرد نہیں۔ اکثر نو آزاد مملکتوں کو ان مسائل سے گزرنا پڑا ہے مگر ہمارے لیے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آگے کیا سیاست میں بہتری کی صورت نظر آرہی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر ہم غلطیوں کو درست کس طرح کر سکتے ہیں۔ تجربات سائنس میں تو اچھی چیز ہیں مگر سیاست میں تجربات کے ساتھ ساتھ تسلسل بھی ضروری ہے۔
آج کے دن کا پاکستان ایک نوجوان ملک ہے۔ نوجوان اپنی عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ کروڑوں نوجوان ملکی سیاست کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک یہ نوجوان پوری دنیا میں جمہوریت اور اس کے ثمرات سے آگاہ ہیں۔ یہ اپنی رائے کا اظہار کھل کر کرتے ہیں اور صرف کی بورڈ پر ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر بھی آ کر سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔
یہ نوجوان اب پنچ سالے میں ایک دفعہ ووٹ ڈالنے کے بعد بھول جانے والے نہیں بلکہ ہر ایشو پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے ابھی تک سیاست میں ان کو وہ نمائندگی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔ سیاست ایک علیحدہ مینار تک محدود رہی ہے۔ اکثر پارٹیوں میں نوجوانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ خدشہ یہ بھی ہے نوجوان کہیں سیاسی نظام سے مایوس نہ ہو جائیں۔ اگر یہی ٹرینڈ چلتا رہا تو یہ موجودہ سیاسی عدم استحکام سے بھی بڑھ کر ایک المیہ ہو گا۔
آج کے روز اہل سیاست کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ 2047 میں وہ کس طرح کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا اس وقت بھی ہم بیٹھے یہی بے چینی اور اضطراب سے بھرپور گفتگو کر رہے ہوں گے جو آج کر رہے ہیں؟
کیا اس وقت بھی ہم اقتدار کی میوزیکل چیئر دیکھ رہے ہوں گے یا پھر ہمارے سیاست دان ملک کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے سرگرداں ہوں گے۔ اس کے لیے وہ تجربات نہیں چاہییں جو ہمیں پیچھے کی طرف لے جائیں بلکہ وہ اتفاق ضروری ہے جس سے ہمارا سیاسی نظام استحکام کی طرف جائے۔