Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مائنس ون کا کھیل، ماریہ میمن کا کالم

’مائنس ون کی اصل تاریخ میں سیاست دانوں سے پہلے بھی کئی کردار آئے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مائنس ون ایک بار پھر خبروں میں ہے۔
پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں بشمول اسد عمر اور مراد سعید نے انکشاف کیا ہے کہ ان کو مائنس ون فارمولا آفر کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے اور حکومت کی درخواست کو ساتھ ملا کے دیکھیں تو عمران خان کو مائنس کرنے پر باقاعدہ کام جاری ہے۔
سوال یہ نہیں کہ کیا یہ کوشش کامیاب ہو گی کہ نہیں؟ سوال یہ ہے کہ بار بار کی کوششوں میں ناکامی سے سبق کیوں نہیں سیکھا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کیا ملک کی مضمحل سیاست اور جمہوریت اس طرح کے ایڈونچرز کی متحمل ہو سکتی ہے؟
مائنس ون کے اس کھیل میں ہر دفعہ کی طرح دوسری طرف بھی سیاست دانوں کا عمل دخل موجود ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت شد و مد سے عمران خان کو نااہل بلکہ پوری پی ٹی آئی کو ہی ختم کرانے کے چکروں میں ہے۔ یہ وہ پارٹیاں ہیں جو جمہوریت اور جمہوری نظام کے تحفظ کی دعوے دار ہیں۔
ایک طرف پیپلز پارٹی ہے جس کی ساری جدوجہد ہی بقول ان کے عوام کے بنیادی حقوق کے لیے ہے۔ دوسری طرف ن لیگ ہے جو کہ خود کئی دفعہ زیر عتاب رہ چکی ہے۔ شاید یہ جماعتیں اور ان کے رہنما اب انتقام کے راستے پر ہیں۔
کچھ خبروں کے مطابق یہ سب نواز شریف کی واپسی کو بیلنس کرنے کے لیے ہے۔ انتقام یا مصلحت، وجہ کوئی بھی ہو، اگر سیاست میں اصول نہیں بلکہ ذاتی ترجیحات اہم ہیں تو ایسی سیاست پر سے اگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھے تو اور کیا ہو۔
پی ٹی آئی خود بھی اس سارے کھیل سے بری الذمہ نہیں ہے۔ اپنے مخالفین کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنا ان کی سیاست کا ایک لازمی جزو ہے۔
انہوں نے بطور اپوزیشن اور پھر حکومت میں ہر ممکن کوشش کی کہ ان کے سیاسی مخالف الیکشن نہ لڑ سکیں بلکہ سیاست سے ہی آؤٹ ہو جائیں۔ نااہلی کے ایشو کو لے کر بھی ان کا موقف بتدریج تبدیل ہوتا رہا ہے۔
آج بھی اگر ان کو حکومت ملے تو ان کی حکمت عملی یہی ہو گی کسی طرح ان کے مخالفین کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی مسترد ہو جائیں۔ ان کے پاس اس کے کئی دلائل بھی موجود ہیں۔ مگر بات پھر اصول کی ہے۔ سیاست اور اقتدار کا فیصلہ عوام اور ان کے ووٹوں سے ہی ہونا چاہیے۔ شاید پی ٹی آئی اس سارے معاملے میں یہ سبق سیکھے کہ اگر عوام کی حمایت حاصل ہو تو کوئی ادارہ چاہے بھی تو لیڈر کو مائنس نہیں کر سکتا۔
مائنس ون کی اصل تاریخ میں سیاست دانوں سے پہلے بھی کئی کردار آئے ہیں۔ پروڈا اور ایبڈو جیسے قوانین کے ذریعے کئی مقبول سیاست دانوں کو الیکشن کے عمل سے ہی باہر کیا گیا۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ غیرجماعتی انتخابات کرائے گئے۔ سیاسی لیڈروں کو ملک سے باہر بھیجا گیا۔ پہلے سزائیں ہوئیں اور پھر وہی سزائیں واپس بھی ہوئیں۔ پارٹیاں توڑ کر ان میں سے فارورڈ بلاک بنائے گئے۔ دوسری طرف این آر او بھی دیے گئے۔
حالیہ دنوں میں پولیٹیکل انجینیئرنگ کی اصطلاح پھر عام ہو چکی ہے۔ کل کی خلائی مخلوق آج نیوٹرل کے نام سے پھر خبروں میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان میوزیکل چیئرز کا خاتمہ کب ہو گا ؟ انگریزی میں zero sum game کی اصطلاح مقبول ہے یعنی ایسا کھیل جس کے آخر میں کسی فریق کو کچھ بھی حاصل نہ ہو۔
مائنس ون بھی اس طرح کے بے سود کھیل ہے جس میں آخر میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں اور لیڈر ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں ہوتے اور نہ ہی ہونے چاہیں۔
ملک کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ قریب ہے۔ اگر دیکھیں تو کئی مقبول رہنما اپنی مقبولیت کھو بیٹھے، کئی سالوں کوشش کے بعد اقتدار تک پہنچے۔ جو عوام کی امنگوں میں رہ سکے وہ باہر نکل کر بھی واپس آگئے۔ جو زبردستی مسلط کیے گئے وہ  یادداشت سے بھی گم ہو گئے۔

’کل کی خلائی مخلوق آج نیوٹرل کے نام سے پھر خبروں میں ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سبق اس کا یہی ہے کہ سیاست دان کا سب سے بہتر امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کو عوام کے سامنے آنے دیا جائے اور جو عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترے وہ اصل میں مائنس ہو جاتے ہیں۔ جو مصنوعی اور ٹیکنیکل طریقوں سے مائنس کیے جائیں وہ پھر واپس آ جاتے ہیں۔
موجودہ حالات میں سیاست اونچے درجہ حرارت پر ہے۔ فریقین بغیر کسی اصول کے کھیل رہے ہیں بلکہ کھیل کو جنگ بنا دیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے سیاست کے اصول اس جنگ میں فراموش نہ کیے جائیں۔ مائنس ون کا کھیل نہ پہلے چلا ہے اور نہ آئندہ چلنے کا امکان ہے۔ ذمہ داری سیاسی جماعتوں سمیت سب اداروں کی ہے۔ سیاست ایسا دائرہ نہیں ہونا چاہیے جس میں جہاں سے شروع کریں وہیں واپس پہنچ جائیں۔ بلکہ سیاست جمہوریت کو آگے لے کر جانے کا نام ہے۔
موجودہ بحران میں ڈر ہے کہ کہیں جمہوریت کے رہے سہے اصول بھی قربان نہ ہو جائیں۔ اس لیے ذمہ داری سب کی ہے۔

شیئر: