Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں دھاگہ رنگنے والے جن کی زندگی رنگین نہیں

رنگسازی میں کیمیکلز کے استعمال سے ہاتھ اور بازو جل بھی جاتے ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
بنگلہ دیش کے پورندا نامی گاؤں کے محمد حسن روزانہ صبح پانچ بجے سے 12 تا 14 گھنٹے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو مختلف رنگوں سے ملے ہوئے پانی میں ڈبوئے رکھتے ہیں۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق بدلتے موسموں کے نت نئے فیشن کے رجحانات کے لحاظ سے کپڑا تیار کرنے کے لیے دھاگے کو قوس قزح کے رنگوں میں رنگا جاتا ہے۔

کیمیکل کی بدبو سے رنگسازی کی صنعت کے کارکن متاثر ہوتے ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا سے 20 کلومیٹر دورسلہٹ روڈ پر نارائن گنج ضلع میں واقع  پوریندا گاؤں نے 'رنگنے والے گاؤں' کے طور پر خاص شہرت حاصل کر رکھی ہے۔
محمد  حسن اور ان کے دیگر ساتھی رنگسازی کے لیے مختلف رنگ بنانے کے لیے ان میں نمکیات، تیزاب اور ایملسیفائر کو ملا کر آگ پر ابالتے ہیں۔
بعض اوقات کوئی خاص رنگ حاصل کرنے کی جستجو میں محمد حسن کو مختلف کیمیکلز کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے ان کے ہاتھ اور بازو جل بھی جاتے ہیں لیکن اب وہ اور ان کے ساتھی اس کے عادی ہو چکے ہیں۔
محمد حسن نے بتایا ہے کہ سفید دھاگے کو سرخ رنگ میں رنگنے کے لیے ہم تین سے چار رنگوں کا مرکب تیار کرتے ہیں۔ جس کے  بعد دھاگے کو رنگوں کے مرکب میں بھگو دیتے ہیں ،دھاگہ سرخ ہو جانے کے بعد خشک ہونے کے لیےلٹکا دیا جاتا ہے۔

سفید دھاگے کو سرخ کرنے کے لیے خاص مرکب تیار کیا جاتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

اس ہنرمند رنگساز کا کہنا ہے یہ کام تکلیف دہ ہے لیکن مجھے یہ ہر صورت  انجام دیناہے۔ میرے پاس کوئی دوسرا ہنر نہیں اور چونکہ میں نے یہ کام سیکھا ہے اس لیے مجھے یہی کرنا پڑے گا۔وہ  اس کام سے تقریباً  22 ہزار ٹکا ماہانہ کما لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے جوانی میں ذریعہ معاش کے لیے کوئی خاص راہ متعین نہیں کی اور اب دھاگوں کو رنگ دیتا ہوں اور زندگی کو رنگین بنانے کا خواب نہیں دیکھتا۔
پوریندا گاؤں میں رنگسازی کے اس خاص مقام پر ایک اور رنگساز محمد شفیق الاسلام نے بتایا کہ میں نے 50 سال قبل اس ڈائنگ ہاؤس میں کام شروع کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے ہمیں جلدی بیماری اور زخموں کا سامنا رہتا  ہے کیونکہ ہمارے ہاتھ ہر روز بغیر دستانوں کے سخت  قسم کے کیمیکلز سے کھیلتے ہیں۔

 شفیق الاسلام نے 50 سال قبل ڈائنگ ہاؤس میں کام شروع کیا تھا۔ فوٹو عرب نیوز

شفیق الاسلام نے بتایا کہ یہ کام بہت مشکل اور تکلیف دہ ہے اور جلد کے مسائل رہتے ہیں لیکن مجھے یہ کام کرنا ہے کیونکہ میں شاید کوئی اور کام کرنے کے قابل نہیں اور میں نے یہی سیکھا ہے۔
نارائن گنج کے چیف گورنمنٹ ہیلتھ آفیشل ڈاکٹر اے ایس ایم مشی الرحمان نے بتایا  ہے کہ یہاں موجود دھاگا رنگنے والی فیکٹریاں کسی بھی ہیلتھ پروٹوکول پرعمل نہیں کرتیں، یہاں کے کارکن مناسب حفاظتی لباس نہیں پہنتے ۔
یہاں کام کرنے والے مزدور ایسے مختلف خطرناک کیمیکل استعمال کرتے ہیں جو نہ صرف جلد کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ پھیپھڑوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ڈاکٹر مشی الرحمان  نے بتایا کہ اس صنعت سے منسلک افراد پھیپھڑوں میں انفیکشن سے شروع ہونے والی کھانسی کے بعد تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کہ مزدور  اور فیکٹری مالکان میں اس مسئلے پر آگہی بہت کم ہے۔

اس صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کو روزگار ملتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

پوریندا گاؤں میں رنگسازی کے ایک یونٹ کے مالک محمد شاہ جلال پردھان کا کہنا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کاروبار کی کچھ مسائل ہیں۔
ہم جو کیمیکل استعمال کرتے ہیں وہ ایسی بد بو  پیدا کرتے ہیں جس سے ہمارے کچھ کارکن متاثر ہوتے ہیں اور وہ الرجی میں مبتلا بھی ہو جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کا شعبہ جس میں رنگسازی کے کارخانے بھی شامل ہیں، ملک کی نمبر ون صنعت ہے،اس صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کو روزگار ملتا ہے۔
بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعت ملک کی مجموعی پیداوار میں 11 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتی ہے اور یہ ملکی برآمدات کا 80 فیصد ہے۔
 

شیئر: