Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنہ 2010 کا اور آج کا سیلاب، کچھ نہیں بدلا؟

جو فلاحی تنظمییں ایک طرح کا کام کر رہی ہیں انہیں ایک نظام کے تحت لانے کی ضرورت ہے (فوٹو: اے ایف پی)
یہ تحریر ان دنوں کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے جو سنہ 2010 کے سیلاب آپریشن کے دوران دریائے سندھ سے ملحقہ اضلاع میں گزرے۔ ایک بین الاقوامی ریلیف آرگنائزیشن کے ساتھ کم و بیش ایک سال کا عرصہ میں نے میانوالی، چشمہ بیراج سے لے کر کشمور، سندھ میں گدو بیراج تک مختلف نوعیت کے پراجیکٹس کرتے ہوئے گزارا۔
ان میں پری فلڈ ایسسمنٹ، سیلاب کے دوران ریلیف آپریشن اور فلڈ کے بعد آبادکاری جیسے پراجیکٹس شامل تھے۔  
ایک اہم بات جس نے مجھے اس فلڈ کے اثرات اور اس سے جڑے دیگر سماجی، معاشی اور گورننس کے ڈائنامکس کو سمجھنے میں زیادہ کردار ادا کیا وہ یہ تھی کہ چونکہ میرا ایک ایسے ادارے سے تعلق تھا جو قدرتی آفات سے نمٹنے کے متعلق سائنٹیفک اپروچ رکھتا تھا۔
مجھے ایک ایسے گروپ کے ساتھ ڈیرہ غازی خان بھیجا گیا جو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر صورتحال کا پیشگی اندازہ لگائے۔ واضح رہے تب تک دریائے سندھ کا سیلابی ریلا تونسہ بیراج تک نہیں پہنچا تھا۔ 
تونسہ بیراج ڈسٹرکٹ ڈی جی خان میں واقع ہے جہاں سے تونسہ شہر کا فاصلہ 22 کلومیٹر جبکہ ڈی جی خان شہر کا فاصلہ 50 سے 60 کلومیٹر ہے، تونسہ بیراج سے ہی مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کا فاصلہ محض 15 کلومیٹر ہے۔
ڈی جی خان میں دریائے سندھ کا پانی اپنے کناروں سے باہر نہیں نکلا تھا، البتہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ دریائے سندھ میں پانی ابھی وہاں تک پہنچا نہیں تھا کہ اسے سیلاب کا درجہ دے دیا جائے۔ ہم دن میں دو بار دریا کے پل پر جاتے تھے جہاں ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ اہلکاروں سے ڈیٹا بھی لیتے تھے اور براہ راست دریا کی روانی سے بھی کچھ اندازہ لگاتے تھے۔ 
تاہم ڈی جی خان شہر کی مغربی سمت تونسہ شہر اور انڈس ہائی وے کے ساتھ ساتھ تونسہ سے لے کر راجن پورتک ایسے لوگوں کا ہجوم لگ چکا تھا جن کے گھر بار سیلاب سے متاثر ہوچکے تھے۔

اگر دریائے سندھ ابھی تک  بپھرا نہیں تھا، تو سوال یہ اٹھتا تھا کہ پھر ان لوگوں کو کس سیلابی ریلے نے آلیا (فوٹو: اے ایف پی)

اگر دریائے سندھ ابھی تک  بپھرا نہیں تھا، تو سوال یہ اٹھتا تھا کہ پھر ان لوگوں کو کس سیلابی ریلے نے آلیا؟ یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے اس سیلابی کہانی کا ایک درد ناک پہلو سامنے آتا ہے اور آج بھی  قدرت انہی حالات کو دہرا رہی ہے کہ ابھی تک یعنی آج اگست کی 29 تاریخ ہے دریائے سندھ اپنے بہاؤ، اپنے کناروں میں بہہ رہا ہے۔
دوسری جانب ڈی جی خان ڈسٹرکٹ اورر راجن پور ڈسٹرکٹ کی ایک بڑی آبادی پچھلے دس دنوں سے پانی کی لپیٹ میں آچکی ہے۔
یہ کیا ماجرا ہے؟
 اس کے لیے انتہائی اہم ہے کہ وہاں کے لینڈ سکیپ یا ڈیموگرافک فیچرز پہ بات کی جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس میں ان علاقوں کی تباہی کا راز بھی پوشیدہ ہے۔ دریائے سندھ اٹک کے مقام سے پنجاب میں داخل ہو جاتا ہے۔ اٹک کے بعد میانوالی ڈسٹرکٹ میں چشمہ بیراج ہے۔ 
یہ پہلا بیراج ہے پنجاب کی حدود میں۔ دوسرا بیراج تونسہ بیراج ہے۔ تونسہ ہے تو ضلع ڈی جی خان میں لیکن تو نسہ بیراج سے زیادہ تر نہریں تونسہ کے زیریں اضلاع کے لیے نکالی گئی ہیں جن میں مظفرگڑھ اور لیہ قابل ذکر ہیں۔
تونسہ کے بعد گدو بیراج ہے جو کہ سندھ کے ضلع کشمور کا آغاز ہے یہاں پر سندھ اور پنجاب کا بارڈر بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گدو بیراج کا بیسن بھی بہت حد تک پنجاب کا کچے کا علاقہ ہی بنتا ہے۔
پنجاب کے صرف دو اضلاع دریائے سندھ کے دوسری یعنی مغربی جانب ہیں۔ یہ دو اضلاع راجن پور اور ڈی جی خان ہیں۔ ان اضلاع کی کمر پر یا پچھلی جانب کوہ سلیمان کا سلسلہ ہے۔ ان پہاڑیوں کی دوسری جانب بلوچستان ہے۔

سماجی سطح پہ عوام پیشگی وارننگ کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ پار رہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہ سلسلہ پنجاب کے انہی دو اضلاع کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر بات کریں) تو ڈیرہ بگٹی سے شروع ہوتا ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے مدمقابل قدرے میدانی علاقہ ہے یہاں سے انڈس ہائی وے کی دوسری جانب راجن پور کی تحصیل روجھان ہے۔
 آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے راولپنڈی کے سامنے مارگلہ کی پہاڑیاں ہے ایسے ہی روجھان اور ڈیرہ بگٹی آمنے سامنے ہیں لیکن راولپنڈی اور مارگلہ کی پہاڑیوں کی نسبت روجھان اور ڈیرہ بگٹی میں فاصلہ زیادہ ہے (یہاں صرف زمینی فاصلے کی بات ہو رہی ہے)۔
یہاں سے جو پہاڑی سلسہ شروع ہوتا ہے، وہ ایک دیوار نما لکیر بناتا ہوا راجن پور، فاضل پور، جام پور، ڈی جی خان اور تونسہ اور چشمہ  سے ہوتا ہوا خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع، ڈی آئی خان، کرک، لکی مروت اور بنوں تک جاتا ہے۔ اسی پہاڑی سلسلے میں ڈی جی خان کی حدود کے اندر ایک تفریحی مقام فورٹ منرو بھی ہے۔ 
فورٹ منرو اونچائی کے اس مقام پر ہے کہ اس کو پار کرنے بعد اترائی شروع ہوتی ہے تو آپ 30 کلومیٹر بعد رکنی (ایک مقام ہے) کے پاٹ سے بلوچستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔   
اب یہ پہاڑیوں کی جو لکیر ہے ہزاروں برسوں سے موجود ہے۔ برسوں سے مون سون کی بارشیں ان چوٹیوں پر برستی ہیں۔ یہاں سے پانی جب ڈھلوان پہ پھسلتا ہوا فزکس کے قانون دہراتا ہے تو انسان مجبور ہے کہ وہ اسے سیلاب یا تباہی کا نام دے۔ 
ان چوٹیوں کی مشرقی ڈھلوان پر بہتا پانی ہزاروں برسوں سے قدرتی نالے بناتا دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ اس ڈھلوان کے اوپر چوٹیوں کے پاس قبائلی آبادیاں ہیں۔ ڈھلوان سے ذرا نیچے آئیں تو قدرے دیہاتی اور قبائلی آبادیوں کا مکسچر ہے۔ مزید نیچے آئیں تو سٹون کرشنگ یا دیگر کاروباری سرگرمی ہوتی ہے۔ 

سیلاب میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو پہلے نکال دیا جائے، مصیبت کا سر پہ آنے کا انتظار نہ کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے نیچے آجائیں تو ڈی جی خان ، تونسہ، جام پور، راجن پور نامی شہری بستیاں ہیں۔ ان بستیوں کے سامنے انڈس ہائی وے ہے۔ انڈس ہائی وے کراس کریں تو پھر انہی بستیوں کی طرح مزید بستیاں اور زرعی زمینیں ہیں۔ مال مویشیوں کے باڑے ہیں۔
ان باڑوں کو کراس کریں تو کچے کا علاقہ ہے، کچے اور بیلے کے سامنے سندھو دریا اپنے تدبر اور ظرف کے ساتھ ان آبادیوں اور وہاں چرتے ڈھور ڈنگروں سے الجھے بغیر سارا سال سکھر اور ٹھٹھہ کی جانب  بہتا رہتا ہے۔ گدو بیراج کے بعد دریائے سندھ پر آخری بیراج سکھر بیراج ہے۔ اس مقام کے بعد سندھ دریا ٹھٹھہ ڈسٹرکٹ میں پہنچ کر سمندر سے جا ملتا ہے۔
واپس آتے ہیں ڈی جی خان کے علاقوں میں۔ اب میرے ساتھ آپ بھی تصور کیجیے کہ آپ جولائی کے آخری ہفتے میں ہیں۔ اور آپ سن رہے ہیں کہ ملک بھر میں بارشیں ہو رہی ہیں۔ شمالی علاقہ جات ملاکنڈ اور کوہستان ریجن میں بھی شدید بارشیں ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ کوہ سلیمان پہ بھی شدید بارشیں ہیں، جیسے شمالی علاقوں میں فلیش فلڈز آتے ہیں بلکل اسی طرح کوہ سلیمان پر ہوئی بارشیں بھی جولائی کے آخری ہفتے یا اگست کے اوائل میں سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان پہاڑیوں سے اترتا ہوا پانی تیز ترین رفتار اپناتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ بعض اوقات ڈھلوان کے زیریں علاقوں میں یہ اچانک سیلاب لے آئے لیکن اب موجودہ دور میں بھی سیلاب کو اچانک آفت تصور کرنا بذات خود ایک آفت ہے۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے سیلاب کے پہلے دورانیے کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہ سلیمان پہ برستی بارشوں نے جو قدرتی نالے بنائے ہیں ان کو مقام زبان میں 'رود کوہی' کہتے ہیں، اور اس سے نکلے سیلابی ریلوں کو رود کوہیوں کا سیلاب کہتے ہیں۔
اب آپ میرے ساتھ دوبارہ 2010 میں  چلیے۔ دریائے سندھ کے پل پر جہاں سے آپ ڈی جی خان شہر میں داخل ہوتے ہیں، اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ شہر کی مغربی سمت میں سیلابی پانی ہے جو رود کوہیوں سے آیا ہوا ہے، ایک تباہی کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ دریا کے تیور تو بدل رہے ہیں لیکن آپ توجہ نہیں دے رہے۔

ڈی جی خان ڈسٹرکٹ اورر راجن پور ڈسٹرکٹ کی ایک بڑی آبادی پچھلے دس دنوں سے پانی کی لپیٹ میں آچکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عین انہی لمحوں میں آپ سن رہے ہیں کہ نوشہرہ اور چارسدہ کے مقام پر دریائے سوات اور دریائے کابل نے تباہی مچادی ہے، آپ کو پہلے سے ہی ایک ایمرجنسی کا سامنا ہے۔ آپ کی سیلاب سے نمٹنے کی استعداد پہ بھی سوال ہے۔ اور سماجی سطح پہ عوام پیشگی وارننگ کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ پار رہے کہ جو پانی کوہستان سے چلا ہے، یہی پانی چارسدہ اور نوشہرہ کے بعد چشمہ سے پنجاب کی حدود میں سیلابی کیفیت پیدا کرے گا۔ چونکہ رود کوہیوں کا سیلاب دریائے سندھ کے مشرقی سمت پہ واقع اضلاع کو نقصان نہیں پہنچاتا اس لیے ان اضلاع میں 2010 میں پیشگی وارننگ کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔
اب آپ میرے ساتھ آج کی تاریخ میں واپس آئیے۔ اگست کی 28 تاریخ تک ڈی جی خان اور ملحلقہ علاقے رود کوہیوں کے سیلاب سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ شمالی علاقوں سے پانی چشمہ بیراج تک پہنچ چکا ہے۔ میانوالی کے دریائی علاقوں میں وارننگ جاری کی چا چکی ہے۔
اب میرا گمان یہ ہے کہ اگر 2010 سے سبق سیکھا گیا ہے تو میانوالی، پپلاں، لیہ، بھکر، کوٹ ادو، مظفر گڑھ، جتوئی، علی پور، بھونگ، کشمور، سکھر، اور دیگر دریا سے ملحقہ علاقوں میں جانی نقصان بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ دریا کا بند ٹوٹنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ یہ سنہ 2010 میں بھی نہیں ہوا. ہوا یہ کہ چشمہ، تونسہ، گدو یا سکھر بیراج اور مرکزی پلوں کو بچانے کے لیے بیراجوں سے جو نہریں نکلتی ہیں ان نہروں میں ان کی کیسپٹی سے زیادہ پانی چھوڑا گیا (یہ فلڈ مینجمنٹ) کا حصہ ہے۔ اور کوشش یہ کی گئی کہ ان نہروں کی روانی متاثر نہ ہو۔ لیکن ان میں سے بہت سی نہریں ٹوٹ گئیں۔
نہر بنسبت دریا کے عوام کی نظر میں  ہوتی ہے اور عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر نہر یہاں سے نہ توڑی گئی تو ایک خاص مقام سے یہ ٹوٹ ہی جائے گی (تو یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے مقامی زمیندار، جاگیردار یا دیگر لوگ) ایک نئی صورتحال سے دو چار ہو جاتے ہیں۔

ماضی سے سبق سیکھا گیا ہوتا تو میانوالی، بھکر، کوٹ ادو، مظفر گڑھ، جتوئی، سکھر میں جانی نقصان نہیں ہونا چاہیے تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2010 میں کوٹ ادو تحصیل میں ایک صورتحال پیدا ہوئی کہ کیپکو پاور پوائنٹ کو بچانا ہے یا شہر کو بچانا ہے۔ تو یہ وہ صورتحال ہے جو ایک بد انتظامی اور سماجی افرا تفری میں اضافہ کرتی ہے۔  
سبق اگر سیکھا جا چکا ہے تو اب کی بار شائد فلڈ کو تباہی یا بربادی سے ہٹ کر فلڈ مینجمنٹ، فلڈ واٹر ڈیٹا کلیکشن، ایمپیکٹ اسیسمنٹ کے تناظر میں ڈیل کرنا ہوگا۔
جب دریائے سندھ  بپھرا تو پھر کیا ہوا؟
’پچھلے ایک سو سال میں ایسا نہیں ہوا، آپ یہ کیا گپ لگا رہے ہیں کہ پانی آ جائے گا‘۔ یہ ہوتا تھا جواب مقامی آبادی کا جو دریا کے قریب یا قریبی نہروں کے قرب و جوار میں آباد تھی۔ جب انہیں مقامی سرکاری اہلکار متنبہ کر رہے تھے کہ اپنے خاندان والوں کو بشمول جانوروں کو محفوظ مقام پر منتقل کریں۔
اپنے تجربے اور تاریخ کی روشنی میں مقامی آبادی کا جواب شاید درست بھی تھا لیکن پھر ایک نئی صورتحال بنتی چلی گئی۔
رود کوہیوں سے نمٹنے والے شہری اور ضلعی انتظامیہ اب دریائے سندھ کے ایک نئے مزاج سے آشنا ہونے والی تھی۔ چشمہ سے نکلتی نہریں ٹوٹیں، تونسہ سے نکتلتی نہر ٹوٹی ایک رات کے اندر کوٹ ادو شہر پانی میں ڈوب چکا تھا، ڈی جی خان شہر میں افواہوں کا بازار گرم ہوا، کہ شہر کا حفاظتی بند اب ٹوٹا کہ تب۔ جہاں خشک جگہ میسر ہوتی لوگ اپنی بھینسیں بکریاں اور خاندان کے افراد لیے کھڑے تھے۔
انسانوں کے لیے خوراک ناپید تھی، تو جانوروں کا چارہ کہاں سے ملتا، لاکھ روپے والی بھینیس 25 ہزار روپے میں فروخت ہوتی میں نے خود دیکھیں، بکریوں کی قیمت چند سو روپے لگ رہی تھی۔
یہ قصہ ہے ان پہلے پندرہ دنوں کا، جب کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کونسا پل ٹوٹے گا اور کون سا توڑنا پڑے گا، کونسی نہر خود ٹوٹے گی اور کون سی نہر ہائی وے کو بچانے کے لیے توڑنا پڑے گی۔   

خوراک سٹور کرنے کے لیے ہر شہر کے باہر ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جائے جہاں پانی چڑھنے کے امکانات کم سے کم ہوں (فوٹو: اے ایف پی)

پھر یہ ہوا کہ دریائے سندھ کے مشرقی سمت تونسہ سے نکلا پانی کوٹ ادو شہر، مظفر گڑھ ، اور جتوئی علی پور سے ہوتا ہوا رحیم یار خان تک پہنچا۔
ایک اہم بات یہ کہ اگر نیچے سیلاب ہو اور اوپر سے بارش بھی برس رہی ہو، امدادی کاموں پہ نکلے لوگ اپنی گاڑیوں امدادی اشیا کے ساتھ خود مصیبت کا شکار ہو گئے۔
 جہاں ایک سے دو ہفتوں تک پکے ہوئے کھانے، ادویات اور خیموں کی ضرورت تھی، وہاں لوگوں نے آٹے کے تھیلے بھیجنا شروع کردیے جو بذات خود ایک مسئلہ بن گیا۔ غازی گھاٹ پل ٹوٹنے سے ڈی جی خان کا زمینی رابطہ کئی دن منقطع رہا، پھر آرمی کی انجینرنگ کور نے ایک میٹل برج بنایا۔
ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ 2008 کے انتخابات میں شہاز شریف راجن پور سے الیکشن لڑے تھے اور یہی سیٹ انہوں نے رکھی تھی بقیہ دو سیٹوں سے انہوں نے استعفی دے دیا تھا، یعنی وہ راجن پور کے ایم پی اے بھی تھے۔
اب کیا کرنا ہے؟
پیشگی وارننگ پر عمل کرنا ہے، پیشگی وارننگ بھی حقیقت کے قریب ہو، لوگوں کو اپنے مویشیوں سمیت نکلنا ہوتا ہے،  گاڑیوں کے کرائے کنٹرول کیے جائیں ، جنہوں نے نکلنا ہے ان کیلئے بہتر انظامات کیے جائیں، ہر گھر میں ایک دو توانا لوگ موجود رہیں ، تاکہ وہ اسی صورت میں نکلیں جب بالکل نکلنا مجبوری ہوجائے، البتہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو پہلے نکال دیا جائے، مصیبت کا سر پہ آنے کا انتظار نہ کیا جائے۔  

دریا کا بند ٹوٹنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، ایسا 2010 میں بھی نہیں ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

خوراک سٹور کرنے کے لیے ہر شہر کے باہر ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جائے جہاں پانی چڑھنے کے امکانات کم سے کم ہوں۔
یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ ایسے علاقوں میں بستے لوگوں کا روزگار کاشت کاری اور مویشیوں کی فروخت یا دودھ پہ مشتمل ہوتا ہے، سیلاب ان کی فصل اور گھر تو تباہ کرہی دیتا ہے، ان کی جان بچانے اور ان کے مویشیوں کے لیے انتظامات بہرحال کیے جا سکتے ہیں۔
جو فلاحی تنظمییں ایک طرح کا کام کر رہیں انہیں ایک کلسڑ میں لانے کی ضرورت ہے، کوارڈینیشن میکنزم کے تحت ریلیف آپریشن ہو، تو ہی کار آمد ہوگا، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کا تعاون اور رہنمائی بنیادی کڑی ہے۔ یاد رہے یہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سائیکل کے حساب سے ابھی ہم  ریسکیو اور ریلیف کے مرحلے کی بات کر رہے ہیں۔
اس بعد بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، کہانی ختم نہیں ہوگی۔ سنہ 2033 بھی آئے گا، رود کوہی بھی آئے گی، گلیشیئرز اور تیزی سے پگھلیں گے۔

شیئر: