Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فی الحال پاکستان میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے دفاتر نہیں بن رہے: حکام

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بتایا گیا ہے کہ رولز عدالت میں زیر التوا ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کمپنیوں کے دفاتر پاکستان میں تاحال قائم نہیں ہو سکے۔ 
پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین میر خان محمد جمالی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
اجلاس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سائبر کرائم سے متعلق بریفنگ میں بتایا کہ سائبر سکیورٹی سے متعلق قواعد بنا رہے ہیں۔
’رولز کی دو سے تین ہفتوں میں کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ سائبر سکیورٹی سے متعلق مقابلے کروانے جا رہے ہیں۔ ایسے مقابلوں سے ٹیلنٹ ابھر کر آتا ہے۔‘
وزارت کے حکام کا کہنا تھا کہ ملک میں اظہار رائے کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
’سوشل میڈیا پر سیاسی شخصیات اور اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں اکتوبر 2020 میں سوشل میڈیا رولز بنائے گئے۔ 2021 میں دو بار ان رولز پر نظرثانی کی گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دفاتر پاکستان میں نہیں۔ نظرثانی شدہ رولز میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو دفاتر بنانے کے لیے وقت دیا گیا۔ سوشل میڈیا رولز کا کیس اس وقت عدالت میں بھی زیر التوا ہے۔‘
حکام کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا رولز پر تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی گئی۔
’عدالتیں کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا رولز کے تحت آزادی اظہار رائے متاثر ہوگی۔ آرٹیکل 19 کے تحت کسی شہری کو مکمل آزادی نہیں ہے۔ آرٹیکل 19 حدود و قیود کے اندر رہ کر آزادی کی بات کرتا ہے۔‘
رکن قومی اسمبلی صلاح الدین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 اس آئین کا حصہ ہے۔ ’سوشل میڈیا پر تنقید کا جواز دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک شخص کو کہا جائے کہ پہلے تنقید کرو اور  اگلے ہفتے معافی مانگ لینا تو اس صورت حال کا کیا کیا جائے گا؟‘

وزارت کے حکام کا کہنا تھا کہ ملک میں اظہار رائے کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اجلاس میں رکن کمیٹی ناز بلوچ نے سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف ٹرینڈز کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ سوشل میڈیا پر پہلے سیاستدانوں کے خلاف مہم چلائی جاتی تھی۔ اب اداروں کے خلاف غلط ٹویٹ کیے جاتے ہیں۔
’ان ٹویٹ کے ذریعے ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں، جنھیں انڈیا سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ میں نے خود شکایت کی مگر ردعمل صفر ہیں۔‘ 
کمیٹی کی رکن جویریہ ظفر کا موقف تھا کہ سیلاب کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔
’سائبر کرائمز کی روک تھام میں ہماری پرفارمنس صفر ہے۔ جب کسی کو اٹھانا ہو تو ایک بیان پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر ایک کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد خواتین پارلیمنٹیرین کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا گیا۔‘ 
اجلاس میں رکن قومی اسمبلی صلاح الدین اور رومینہ خورشید عالم کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

رومنیہ خورشید عالم نے کہا کہ جھوٹی مہم چلائی گئی کہ 25 ارکان پارلیمنٹ کینیڈا گئے۔ (فوٹو: فیس بک)

ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین اپنی حکومت پر برس پڑے اور کہا کہ جب پاکستان ڈوب رہا تھا تو پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر کینیڈا میں کیا کر رہے تھے۔
’سپیکر قومی اسمبلی نیاگرا واٹر فال کے سامنے کیا کر رہے تھے۔ قوم سیلاب میں ڈوب رہی تھی سپیکر صاحب وہاں ڈالر خرچ کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف گھٹیا مہم چلائی گئی۔‘
رومنیہ خورشید عالم نے کہا کہ ’پارلیمنٹ سے صرف دو لوگ سپیکر قومی اسمبلی اور میں کینڈا کے دورے پر گئے تھے۔ دنیا بھر کی پارلیمنٹس اس ایونٹ کی فیس ادا کرتی ہیں۔ افسوس ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو بھی نہیں پتہ کہ کینیڈا کا دورہ کیوں تھا۔ میں اس اجلاس میں مزید نہیں بیٹھ سکتی۔ جس کے بعد رومینہ خورشید عالم اجلاس سے واک آوٹ کر گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جھوٹی مہم چلائی گئی کہ 25 ارکان پارلیمنٹ کینیڈا گئے۔

شیئر: