سوشل میڈیا رولز، اختیارات کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے: عدالت
سوشل میڈیا رولز، اختیارات کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے: عدالت
جمعہ 18 دسمبر 2020 11:00
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پی ٹی اے کے رولز کو پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے ذریعے پی ایف یو جے نے چیلنج کر رکھا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوشل میڈیا رولز کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں آزادی اظہار رائے کو دبایا جاتا ہے وہ ممالک اقتصادی لحاظ سے پیچھے چلے جاتے ہیں۔
جمعے کو پی ٹی اے کے سوشل میڈیا رولز کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو نئے رولز بنائے گئے اس میں اختیارات کا غلط استعمال بھی نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے بتانا ہے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کون ہیں؟ کیا ان کے ساتھ مشاورت ہوئی؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی اے کو ہدایت کہ جو رولز بنائے گئے ہیں وہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بھیجوا دیے جائیں۔
پی ٹی اے کے رولز کو پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے ذریعے پی ایف یو جے نے چیلنج کر رکھا ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا رولز کو آئین کے مطابق پرکھ کر چیلنج کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسی نوعیت کی ایک درخواست پہلے سے سماعت کے لیے مقرر ہے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس درخواست کو بھی اس کے ساتھ ہی سنتے ہیں۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی اے نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے از خود رولز بنا کر عدالت میں پیش کیے جو آئین سے متصادم ہیں انہیں فی الفور ختم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عظمت اسلام، اخلاقیات، سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 19 میں درج ہیں۔ آئین کی تشریح صرف عدالت کا اختیار ہے پی ٹی اے کا نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ رولز کے تحت شکایت کنندہ کی شناخت اور قابل اعتراض مواد کو خفیہ رکھا جائے گا۔ پی ٹی اے نے رولز میں ازخود نوٹس کا اختیار بھی لے لیا ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رولز کے تحت پیکا قانون میں سروس پرووائیڈر کو فراہم کیا گیا تحفظ ختم کر دیا گیا ہے۔
بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ رولز میں سرکاری اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مدعی بننے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں ،انٹیلی جنس اداروں کو مدعی بنانے کا اختیار شفاف ٹرائل کے اصولوں کے خلاف ہے۔
وکیل نے کہا کہ پی ٹی اے اور تحقیقاتی ادارے خود شکایت کنندہ اور خود منصف بنیں گے تو شفاف ٹرائل ممکن نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نےعدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل خود پیش ہو کر دلائل دینا چاہتے ہیں کچھ مہلت دی جائے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 25 جنوری تک ملتوی کر دی۔
پی ٹی اے کی جانب سے احمر بلال صوفی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔