Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا متنازع بیان، پارٹی قیادت اور اتحادی کہاں کھڑے ہیں؟

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے متنازع بیان کے بعد ان کے اتحادی پرویز الٰہی نے مختلف موقف اختیار کر لیا ہے جبکہ بظاہر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت چند قریبی ساتھی بھی کھل کر اس بیانیے کا ساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری اور فواد چوہدری واضح طور پر اس بیانیے کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو فوج کے حوالے سے محتاط ہو کر بیان دینا چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں عمران خان کے جارحانہ بیانات تو کافی عرصے سے جاری تھے مگر فیصل آباد کے جلسے میں ان کے جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور مسلح افواج کے ترجمان نے پریس ریلیز بھی جاری کی تھی جس میں کہا گیا کہ ’عمران خان کے بیان پر پاک فوج میں شدید غم و غصہ ہے۔‘
فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کہا تھا کہ ’آصف زرداری اور نواز شریف اپنا پسندیدہ آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا ’یہ اپنی مرضی کا ایسا جنرل لانا چاہتے ہیں جو ان کے لیے بہتر ہو کیونکہ یہ ڈرتے ہیں کہ اگر محبِ وطن جنرل کو آرمی چیف بنایا گیا تو وہ ان کی چوری کا پوچھے گا۔‘

پرویز الٰہی کا متضاد موقف 

منگل کو پرویز الٰہی نے لاہور میں جامعہ اشرفیہ کی تقریب سے خطاب میں آرمی چیف جنرل باجوہ کی تعریف کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’فوج کے خلاف بات کرنے والے قوم اور دین کے دشمن ہیں۔‘ 
ان کی تقریر سے یہی تأثر ملا کہ وہ عمران خان کے موجودہ بیانیے سے بالکل مختلف بات پیش کر رہے ہیں۔   

اسد عمر نے عمران خان کے فوج میں میرٹ کے موقف کی تائید کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بعد میں ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی فوج اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے اپنے خطاب کے نکات کو دوبارہ شیئر کرنا ضروری سمجھا۔
پرویز الٰہی نے کہا ’میں نے پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ ہمیشہ اسلام اور پاکستان کے دفاع اور تحفظ کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ اسلام کی خدمت، جمہوریت اور ملکی دفاع کے حوالے سے ان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’پی ڈی ایم غلط فہمی میں نہ رہے کہ کسی کے پاک فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے۔ مسائل کا حل جو نکلتا ہے جنرل باجوہ کی خصوصی کاوشوں سے ہی نکلتا ہے۔‘ 
وزیراعلٰی پنجاب نے کہا کہ اسلام کی خدمت، جمہوریت اور ملکی دفاع کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔

 شاہ محمود قریشی کی لاعلمی

عام طور پر اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اس معاملے پر کوئی واضح پوزیشن نہیں لے رہے ہیں۔
سوموار کو ایک مقامی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان کے متنازع بیان پر ان کے موقف سے متعلق پوچھا گیا تو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے بیان اب تک سنا ہی نہیں ہے۔

آئی ایس پی آر نے عمران خان کے بیان کی شدید مذمت کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

پروگرام کے اینکر نے انہیں بیان سنانے کی بھی پیش کش کی مگر انہوں نے اس سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے کیا معلوم کہ اس بیان کا سیاق و سباق کیا ہے۔‘
بدھ کو اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ اپنا موقف ٹی وی شو میں دے چکے ہیں۔

اسد عمر اور فواد چوہدری کی وضاحت

دوسری جانب پارٹی کے سینیئر رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاک فوج میں میرٹ کے اصول کے دیرینہ موقف کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
اپنی ٹویٹ میں اسد عمر نے کہا ’عمران خان نے ہمیشہ فوج کے پروفیشنل ازم اور قربانیوں کی تعریف ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے بیان کی وضاحت دی جا چکی ہے۔ ان کا کسی صورت ادارے اور اس کی سینیئر قیادت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘ 
پارٹی کے رہنما فواد چوہدری نے فیصل آباد جلسے کے اگلے روز ہی پریس کانفرنس میں عمران خان کے بیان کی طویل وضاحت کی تھی۔
فواد چوہدری کے مطابق ’عمران خان نے کہا نواز شریف اور زرداری سکیورٹی رسک ہیں کیونکہ ان کی جائیدادیں اور اولادیں ملک سے باہر ہیں اور تمام تر مفادات ملک سے باہر ہیں ان کا بیان فوج یا فوج کی قیادت کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔‘

شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

عمران خان فوج سے متعلق بیان میں احتیاط کریں: حامد خان 

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ پارٹی چیئرمین عمران کو فوج کے حوالے سے بیان دیتے وقت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ مخالفین اسے ان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کا ہمیشہ سے موقف ہے کہ فوج کا کردار دفاع تک محدود ہونا چاہیے اور سیاست سے اس کا تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
حامد خان نے مزید کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے شاید بالواسطہ بہتر ہو رہا ہے کہ عوام میں فوج کے سیاسی کردار کے خلاف آگاہی پیدا ہو رہی ہے۔

شیئر: