Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج 2022: بینکوں کی غفلت پر 21 کروڑ جرمانے کی رقم حجاج کو بطور سبسڈی ادا

قرعہ اندازی میں نام آنے والے حجاج کو دو دن میں رقم جمع کرنے کا کہا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
رواں سال حج کے موقع پر درخواستیں وصول کرنے والے بینکوں کی ایک غلطی کی وجہ سے وزارت مذہبی امور کو ایک ہزار 414 اضافی عازمین حج کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے لے کر جانا پڑا۔
بینکوں کی اس غلطی پر وزیراعظم شہباز شریف نے نوٹس لیا جس کے نتیجے میں بینکوں کو فی حاجی ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
رواں سال حج کے موقع پر پاکستانی کی وزارت مذہبی امور کی جانب سے حج پالیسی کے اعلان کے بعد قرعہ اندازی میں نام آنے والے حجاج کو دو روز میں رقوم بینکوں میں جمع کرانے کا کہا گیا۔
بینکوں اور وزارت مذہبی امور کے درمیان ہونے والے ایم او یو کے تحت تمام بینک اس بات کے پابند تھے کہ فیسیں جمع ہونے کے حوالے سے معلومات سسٹم میں اپ لوڈ کرتے جائیں تاکہ وزارت کو بھی براہ راست معلوم ہو سکے کہ کتنے عازمین نے رقوم جمع کروا دی ہیں۔  
دو روز گزر جانے کے بعد ایک دن کی مزید توسیع کی گئی لیکن قرعہ اندازی میں نام آنے والے عازمین میں کم و بیش 1500 افراد کی جانب سے فیسیں جمع نہ ہوئیں۔
وزارت مذہبی امور نے اپنے لیے طے شدہ کوٹہ پورا کرنے کے لیے مزید 1500 لوگوں کو پیغامات بھیج دیے کہ وہ اگر حج کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک دن میں فیس جمع کروا دیں جس کے بعد ایک ہزار 414 افراد نے فیس جمع کرا دیں۔  
اگلے روز معلوم ہوا کہ بینکوں کی غلطی کے باعث کم و بیش 1500 لوگوں کی فیس جمع کرانے کا ریکارڈ اپ لوڈ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وزارت نے مزید لوگوں سے فیس جمع کرانے کا کہا گیا اور اس غلطی کی نشاندہی کے بعد پاکستان کے عازمین کی تعداد طے شدہ کوٹہ سے زیادہ ہو چکی تھی۔  
اس صورت حال میں وزیراعظم کو کردار ادا کرتے ہوئے سعودی حکومت سے درخواست کرنا پڑی جس کے نتیجے میں مزید دو ہزار حاجیوں کا کوٹہ الاٹ ہوا اور وزارت مذہبی امور ان افراد کو بھی حج پر لے کر گئی جن سے غلطی سے فیسیں وصول کر لی تھیں۔

بینکوں کو فی حاجی ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ فوٹو: وزارت مذہبی امور

اس حوالے سے سیکرٹری مذہبی امور آفتاب درانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں تصدیق کی کہ بینک وزارت کے ساتھ اس ضمن میں کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ ’جب وزیراعظم نے نوٹس لیا تو اس کی باضابطہ تحقیقات ہوئیں اور بینکوں نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اس کے بعد وزیراعظم نے وزارت خزانہ کے ذریعے بھی تحقیقات کرائیں اور بینک ہی قصور وار قرار پائے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جب ایک ہزار 414 اضافی عازمین حج سے فیس وصول کر لی گئی تو ہمارے سامنے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی تھی۔ اگر ہم ان کو پیسے واپس کرتے تو ایسے میں وزارت کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسری جانب ہمارے پاس کوٹہ بھی نہیں تھا۔ سعودی حکومت کی جانب سے اضافی کوٹہ الاٹ ہونے کی وجہ سے ہماری مشکل حل ہوئی۔‘ 
سیکرٹری مذہبی امور نے بتایا کہ بینکوں کی غلطی ثابت ہوجانے اور طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی پر وزارت کی جانب سے فی حاجی ڈیڑھ لاکھ روپیہ جرمانہ کیا گیا جو تقریبا 21 کروڑ روپے بنتا تھا۔ یہ 21 کروڑ روپیہ حکومت کی جانب سے فی حاجی دی جانے والی ڈیڑھ لاکھ روپے سبسڈی کے طور پر حاجیوں کو دے دیا گیا۔  
دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بینکوں کی اس غلطی کے بعد وزارت مذہبی امور نے پاکستان کے لیے ہارڈ شپ کوٹہ متاثر کرتے ہوئے اضافی عازمین حج کو بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر متعلقہ حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

بینکوں کی غلطی کے باعث ایک ہزار 414 اضافی عازمین نے حج ادا کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس صورت حال پر پبلک اکاونٹس کمیٹی نے بھی نوٹس لیا اور بینکوں کی غفلت بارے سٹیٹ بینک کو خط لکھ کر آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 
پی اے سی کی رکن شاہدہ اختر علی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ بینکوں نے عازمین حج کے ساتھ ایسا کیا ہو بلکہ ماضی میں بینک قرعہ اندازی میں نام نہ آنے والے درخواست دہندگان سے جھوٹ بول کر رقوم وصول کرکے کئی کئی ماہ تک اپنے پاس رکھتے رہے ہیں۔ پی اے سی کے پاس ایسے کئی آڈٹ اعتراضات ہر سال آتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ رواں سال حج کے حوالے سے پیش آنے والے اس واقعے میں قصور وار صرف بینک ہی نہیں بلکہ وزارت کے اعلیٰ افسران کی ملی بھگت بھی شامل تھی لیکن وزیر مذہبی امور اور وزیراعظم کی مداخلت سے معاملات سنبھالنے میں مدد ملی۔  
شاہدہ اختر علی نے مطالبہ کیا کہ اب بھی اس واقعے میں وزارت مذہبی امور کے افسران کی ملی بھگت کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں تاکہ آئندہ کوئی عازمین حج کے ساتھ فراڈ کی کوکشش نہ کرے۔  

شیئر: