Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ رنگ محل ایک رنگیلے کے لیے تھا

حیدرآبادی کھانوں کی بیشتر اقسام میں املی پڑتی ہے۔ (فوٹو: ڈریم ویلی ریزورٹس)
اس لیے طیش آ گیا تھا مجھے
وہ ہنسی میں اڑا گیا تھا مجھے
جب کوئی کسی کو ہنسی میں اڑائے گا تب طیش تو آئے گا۔ عربی زبان سے متعلق ’طیش‘ کے اصطلاحی و مجازی معنی میں شدید جھنجھلاہٹ، غضب و غصہ کے علاوہ، سُبکی، خفت، عقل کا ہلکا پن اور ناسمجھی داخل ہیں، جبکہ ’طیش‘ کے لفظی معنی ’تیر کا نشانے سے خطا ہو جانا‘ ہے۔
اب ’طیش‘ کے لفظی معنی کو ذہن میں رکھیں اور نشانہ خطا ہو جانے کی صورت میں رُونما ہونے والے عوامل پر غور کریں۔ اس کا اول نتیجہ شکار کے بھاگ کھڑے ہونے کی صورت میں نکلتا ہے اور دوم شکاری کی مہارت پر حرف آتا ہے، جسے شکاری اپنی سُبکی سمجھتا ہے اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہ جھنجھلاہٹ غصے کو جنم دیتی ہے، جو عقل پر غالب آتا ہے ایسے میں وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس میں بے عقلی کا دخل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس سلسلہ حوادث کی رعایت سے پیدا ہونے والے مختلف معنی ایک لفظ ’طیش‘ میں سما گئے ہیں۔
ویسے جو حالتِ طیش میں خود پر قابو نہیں رکھتا اُس کی ظاہری معقولیت مشکوک ٹھہرتی ہے، بقول بہادر شاہ ظفر وہ آدمیت کے مرتبے سے گر جاتا ہے:
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
’طیش‘ کے بعد اب ’عیش‘ کا احوال ملاحظہ کریں۔ لفظ ’عیش‘ خوش حال زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی ’عیش‘ سے لفظ معاش اور معیشت ہے، جس کے معنی میں کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن پر زندگی بسر کی جاتی ہے، جبکہ جس شخص کو یہ سامانِ عیش میسر ہو وہ ’عیاش‘ کہلاتا ہے۔

لفظ ’مُرَّبیٰ‘ کی تعریف میں پھلوں سے بنا وہ مخصوص میٹھا بھی شامل ہے، جو اردو میں’مُرَبَّا‘ اور ’مُرَبَّہ‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

عربی کا ’عیاش‘ اردو میں ’یائے معروف/ ی‘ پر تشدید کے ساتھ ’عیّاش‘ ہے۔ چونکہ بعض صورتوں میں مال و دولت کی فراوانی بے راہ روی کا سبب بنتی ہے، لہٰذا عربی کے برخلاف فارسی اور اردو میں ’عیّاش‘ کے معنی میں بدکار اور اوباش داخل بھی ہیں، اسی نسبت سے اردو میں ’عیّاش‘ کو ’عیش کا بندہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جب کہ ’عیاش طبیعت‘ کی ترکیب بھی اسی معنی کی ترجمان ہے۔ دیکھیں ’رمز عظیم آبادی‘ کیا کہہ رہے ہیں:
عیاش طبیعت کا ہے آئینہ اک اک اینٹ
یہ رنگ محل ایک رنگیلے کے لیے تھا
’عیش‘ کے ایک معنی ’نان‘ کے بھی ہیں، جو ظاہر ہے کہ اپنے بنیادی معنی سے مطابقت رکھتا ہے۔ عیش بمعنی نان کے ساتھ اردو محاورہ ’روٹیاں لگنا‘ پر غور کریں، آپ پر ایک بار پھر ’عیّاش‘ کے منفی معنی کُھل جائیں گے۔ اس لیے کہ محاورہ ’روٹیاں لگنا‘ بھرے پیٹ پر اِترانا اور فارغ البالی کی وجہ سے نخرے دِکھنا کے مفہوم میں برتا جاتا ہے۔ 
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں تربیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لفظ ’تربیت‘ کا مادہ یا بنیادی لفظ ’رَبّ‘ ہے۔ عربی میں ’اَلرَّبُ‘ کے معنی تربیت کرنا ہیں، جبکہ تربیت کرنے والا ’مُرَبّی‘ اور جس کی تربیت کی جائے وہ ’مُرَّبیٰ‘ کہلاتا ہے۔
لفظ ’مُرَّبیٰ‘ کی تعریف میں پھلوں سے بنا وہ مخصوص میٹھا بھی شامل ہے، جو اردو میں’مُرَبَّا‘ اور ’مُرَبَّہ‘ کہلاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان دونوں الفاظ کی اصل عربی ’مُرَّبیٰ‘ ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ وہ شیرہ جس میں ’مُرَبَّا‘ تیار ہوتا ہے اُسے ’رُبُّ‘ اور ’راب‘ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ان دونوں لفظوں کے معنی میں ’تربیت‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
اگر آپ مٹھاس کے ذکر سے اُکتا گئے ہیں تو کچھ ذکر حیدرآباد دکن کا کرتے ہیں کہ جس کے ذکر ہی سے منہ میں کھٹاس گُھل جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حیدرآبادی کھانوں کی بیشتر اقسام میں املی پڑتی ہے۔ 
حیدرآباد کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا تعلق دکن کی سرزمین سے تھا۔

’طیش‘ کے اصطلاحی و مجازی معنی میں شدید جھنجھلاہٹ، غضب و غصہ کے علاوہ، سُبکی، خفت، عقل کا ہلکا پن اور ناسمجھی داخل ہیں۔ (فوٹو: پکسابے)

حیدر آباد دکن کے ذکر میں یہ بات بھی لائق بیان ہے کہ اہل حیدرآباد کسی بھی اسم کی جمع بنانے کے لیے اُس کے آخر میں ’اں‘ کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ مثلاً وہ حیدرآباد کی تاریخی عمارت چار مینار کو ’چار میناراں‘ پکارتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ جمع بنانے کا یہ فارمولہ اہل پنجاب بھی برتے ہیں یوں وہ ’رات‘ اور ’ملاقات‘ کی جمع بالترتیب ’راتاں‘ اور ’ملاقاتاں‘ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جمع بنانے کا یہ قاعدہ اصلاً فارسی زبان سے متعلق ہے، تاہم حیدآبادی اور پنجابی میں یہ فارمولہ الٹا برتا جاتا ہے، جبکہ فارسی میں یہ ایک قاعدے کا پابند ہے۔ اس لیے کہ فارسی میں ہر اسم کی جمع ’ان/اں‘ کے اضافے سے نہیں بنتی، اس میں جمع بنانے کے اور بھی اصول ہیں۔
تفصیل کا موقع نہیں اس بات کو اس طرح سمجھ لیں کہ لاحقہ ’ان‘ کے ساتھ دشمن سے دشمنان اور برادر سے ’برادران‘ ہے، تو لاحقہ ’گان‘ کے ساتھ لفظ بندہ و پرندہ کی جمع ’بندگان‘ و ’پرندگان‘ ہے۔ 
پھر جمع کے ایک قاعدے میں واحد کے آخر میں ’یان‘ بڑھاتے دیتے ہیں، اس اصول کو ’جنگجو‘ سے ’جنگویان‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔  
ایسے ہی اردو میں جسے ہم ’بار بار‘ کہتے ہیں وہ فارسی میں ’بارہا‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لاحقہ ’ہا‘ کا کمال ہے جو واحد کو جمع میں بدلنے کے کام آتا ہے، اسے ’سخن‘ سے ’سخنہا‘ اور نسخہ سے ’نسخہ ہا‘ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
میرزا غالب نے ایک شعر میں ’نسخہ ہا‘ کو ’نسخہ ہائے وفا‘ کی ترکیب کے ساتھ استعمال کیا تو فیض احمد فیض نے اس ترکیب کو اپنی کلیات کا سرنامہ بنا دیا۔ اب اس ترکیب سے مزّین میرزا غالب کا شعر ملاحظہ کریں:
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہ خیال ابھی فرد فرد تھا

شیئر:

متعلقہ خبریں