اوستائی زبان میں پہاڑ کو ’کؤفہ‘ کہتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
علامہ اقبال کے اس شعر میں ’کوفہ و بغداد‘ محض شہر نہیں بلکہ علمی و تمدنی سرگرمیوں کا حوالہ ہیں۔ سردست ان شہروں کی تاریخ کا بیان مقصود نہیں بلکہ ان کی وجہ تسمیہ سے بحث مطلوب ہے۔
اہل عرب کے ہاتھوں آباد ہونے والے ’کوفہ‘ کا نام قدیم فارسی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ یوں کہ اوستائی زبان میں پہاڑ کو ’کؤفہ‘ کہتے ہیں، یہی لفظ معمولی سے تغیر کے ساتھ ’کوفہ‘ ہوا اور پھر ’کوہ‘ میں بدل گیا۔
پہلوی زبان میں پہاڑ کو ’کف‘ اور ’کفک‘ بھی کہتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ دونوں لفظ ’کؤفہ‘ سے متعلق ہیں۔ پہلوی کے ’کف‘ اور ’کفک‘ کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
’کف‘ اگر ایک طرف ’پہاڑ‘ کے معنی دیتا ہے تو دوسری طرف ’سرِکوہ‘ پڑنے والی برف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر موجود یہ برف ’کُلۂ کوہ‘ بھی کہلاتی ہے۔ گویا یہ دستار ہے جو سرِ کوہسار بندھی ہے۔
پہاڑوں پر پڑنے والی نرم و سفید برف کو ذہن میں رکھیں اور ’کف‘ بمعنی جھاگ پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان دونوں میں لفظی یکسانیت کے علاوہ معنوی مشابہت بھی موجود ہے۔
اسی ’کف‘ سے لفظ ’کفگیر‘ بھی ہے، یہ جالی دار یا سوراخوں والا بڑا چمچہ ہوتا ہے جو ہانڈی کے جوش مارنے پر پیدا ہونے والا جھاگ اتارنے کے کام آتا ہے۔
اردو میں ’کف اُٹھنا، کف اُڑنا اور کف اُڑانا‘ عام محاورت ہیں جو جھاگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم اس ’کف‘ سے الگ ایک اور ’کف‘ بھی ہے، جس کے معنی ہتھیلی اور تلی (ایڑی اور پنجے کا درمیانی حصہ) کے ہیں۔ اسے ’کفِ دست‘ اور ’کفِ پا‘ کی سی تراکیب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ہم جسے پچھتاوے کی صورت میں ہاتھ ملنا کہتے ہیں وہ ’کفِ افسوس ملنا‘ کہلاتا ہے۔ ایسے ہی تلوار سونت لینا ’شمشیر بکف‘ اور ’تیغ بکف‘ ہے۔ یعنی ہاتھ میں تلوار تھامے لڑنے پر تیار ہوجانا۔
اب آگے بڑھنے سے قبل ’کفِ افسوس‘ کی رعایت سے فیصل عظیم کا شعر ملاحظہ کریں:
بھری ہے آگ جیبوں میں کفِ افسوس ملتے ہیں
ہماری ہی کمائی سے ہمارے ہاتھ جلتے ہیں
’کؤفہ‘ سے بننے والے ’کف‘ کے بعد اب اس کے جوڑی دار ’کفک‘ کا حال ملاحظہ کریں۔ پہلوی میں ’کفک‘ کوہ کے علاوہ ’کوہان‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ’کوہان‘ ایک درجے میں ’کوہ‘ سے مشابہ ہوتا ہے۔
پہلوی ’کفک‘ ارمنی زبان میں یہ بصورت ’کھک‘ رائج ہے، اور پہاڑ کے علاوہ پہاڑ جیسی بلند موج کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اب پہاڑوں سے اترتے اور سوئے بغداد چلتے ہیں جس کے معنی بھی خاصے دلچسپ ہیں۔ ایک رائے مطابق لفظ ’بغداد‘ کی اصل ’باغِ داد‘ ہے۔ یہ اُس باغ کا نام تھا جہاں کسریٰ ایران ’داد‘ یعنی بخشش و انعام دیا کرتا تھا۔ اس بخشش کی نسبت سے یہ مقام ’باغِ داد‘ کہلایا پھر کثرتِ استعمال سے ’بغداد‘ ہوگیا۔
سچ یہ ہے کہ بظاہر معقول معلوم ہونے والی ’بغداد‘ کی یہ وجہ تسمیہ حقیقت سے دور ہے، اس لیے کہ ’بغداد‘ کا جُز اول ’بغ‘ لفظِ باغ کی تخفیف نہیں بلکہ ’بُت‘ کے معنی رکھتا ہے۔ جس طرح ’خداداد‘ کے معنی ’خدا کا عطیہ‘ ہیں، ایسے ہی ’بغداد‘ کے معنی ’بغ کی دَین‘ ہیں۔
لفظ ’بَغ‘ کی اصل ’فَغ‘ ہے جو معدوم ہوجانے والی ’سغدی‘ زبان میں ’بُت‘ کہتے تھے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’سغد‘ ترکستان میں سمرقند کے پاس ایک بارونق شہر تھا جو اپنی دلکش آب و ہوا اور بہترین محل و وقوع کی رعایت سے ’فردوس بر روئے زمین‘ کہلاتا تھا۔ اس شہر کی نسبت سے یہاں بولی جانے والی زبان ’سغدی‘ کہلاتی تھی۔
’سغدی‘ میں ’فَغ‘ کا ایک تلفظ پیش کے ساتھ ’فُغ‘ بھی ہے، بہرحال یہ ’فغ‘ ایک طرف ’بغ‘ ہوا اور ’بغداد‘ میں استعمال ہوا تو دوسری طرف اس نے ’بھگ‘ کی صورت اختیار کیا اور ’وان‘ کے لاحقے کے ساتھ ’بھگوان‘ ہوگیا۔
اس ’بغ‘ کی ایک صورت ’پغ‘ بھی ہے، جو ’بغپور‘ کی ترکیب میں دیکھی جا سکتی ہے، ’بغپور‘ کے معنی ’پغ/بغ کا بیٹا‘ ہیں۔ اس ’پغپور‘ کی دوسری صورت ’فغفور‘ ہے۔
زمانہ قدیم میں ’فغفور‘ کی اصطلاح شاہان چین اور شاہانِ ترک و تاتار استعمال کرتے تھے۔
اب ’فغفور‘ کو علامہ اقبال کی مشہور نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ کے ایک شعر میں ملاحظہ کریں:
موت کا پيغام ہر نوع غلامی کے ليے
نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقير رہ نشيں
شعر بالا میں وارد لفظ ’خاقان‘ بھی منگولوں اور ترکوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی اصل صورت ’قان قان‘ ہے، جب کہ اس کے معنی ’خانِ خانان‘، امیر الامراء یا رئیس الروساء کے ہیں۔ اس ’قان قان‘ کی دیگر صورتیں ’قان القان‘ اور ’قان القانات‘ ہیں۔
اس وضاحت کے ساتھ آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوں کہ لفظ ’خان‘ کی اصل بھی ’قان‘ ہے، چوں کہ حرف ’قاف‘ اکثر صورتوں میں ’خ‘ سے بدل جاتا ہے، اس لیے ’قان‘ کا لفظ بدل کر ’خان‘ ہوگیا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ حیدرآباد دکن میں ’قاف‘ اور ’خ‘ کا تبادل معکوس طور پر کیا جاتا ہے، یعنی وہ ’خ‘ کا تلفظ ’قاف‘ کرتے ہیں، یوں ’قبر‘ کو ’خبر‘ پڑھتے اور ’قیوم‘ کو ’خیوم‘ پکارتے ہیں۔