Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹی ٹی پی سے مذاکرات آئین کے تحت، پارلیمان کی نگرانی میں ہوں گے‘

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی۔ (فوٹو: سکرین گریب)
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات آئین کے تحت اور پارلیمان کی نگرانی میں ہوں گے۔‘
منگل کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ایک ’پارلیمانی اوور سائیٹ کمیٹی‘ تشکیل دینے کی بھی منظوری دی جو آئینی حدود میں اس عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہو گی۔‘
’حتمی نتائج پر عمل درآمد دستور پاکستان کی حدود و قیود کے اندر ضابطے کی کارروائی کی تکمیل اور حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد ہو گا۔‘
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر اور پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کو دعوت نامہ نہیں بھجوایا گیا تھا۔
 پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کمیٹی کا چھٹا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں تینوں سروسز چیفس، سربراہ آئی ایس آئی سمیت دیگر اداروں کے سربراہان بھی شریک تھے۔ اجلاس میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کو اجلاس کے لیے دعوت نامہ نہیں بھجوایا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا، سینیٹ و قومی اسمبلی کی دفاعی قائمہ کمیٹی کے ارکان بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں شرکت کے لیے 107 ارکان پارلیمنٹ، کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعظم اور دیگر اعلٰی حکام کو دعوت دی گئی تھی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس کے شرکا نے اعادہ کیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔
اجلاس میں قوم اور سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جن کی وجہ سے ملک کے تمام حصوں میں ریاستی عمل داری یقینی ہوئی۔
اجلاس کے شرکا نے اعادہ کیا کہ ’دستور پاکستان کے تحت طاقت کا استعمال صرف ریاست کا اختیار ہے۔ اجلاس نے اے پی ایس سمیت دہشت گردی کا نشانہ بننے اور اس کے خلاف کارروائی کے دوران شہید ہونے والوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاست پاکستان اپنے شہدا کی قربانیوں اور متاثرہ خاندانوں کی امین و محافظ تھی، ہے اور رہے گی۔‘

اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی، وفاقی وزرا اور دفاعی قائمہ کمیٹی کے ارکان شرکت کریں گے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 اجلاس میں قبائلی عوام کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا گیا کہ اُن کی قربانیوں اورکلیدی حمایت سے شدید مشکلات اور مصائب کے بعد امن واستحکام کی منزل حاصل ہوئی۔
اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ سکیورٹی فورسز کی موثراور عملی کارروائیاں کلیر، ہولڈ، تعمیر اور اختیارات کی سول انتظامیہ کو منتقلی‘ کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
’پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق ریاست ان علاقوں کو بااختیار بنانے اور اِن کی خوش حالی کے لیے پختہ عزم پر کار بند ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق افغان حکومت کی معاونت اور سول و فوجی حکام کی قیادت میں حکومت پاکستان کی کمیٹی کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ آئین پاکستان کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کر رہی ہے تاکہ علاقائی اور داخلی امن کو استحکام مل سکے۔
اجلاس نے ’نیشنل گرینڈ ریکنسائلیشن ڈائیلاگ‘ کی اہمیت کی تائید کرتے ہوئے قرار دیا کہ آج کی نشست اس سمت میں پہلا قدم ہے۔

اجلاس میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل تھا جس میں افغانستان کے معاملات اور تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر اہم معاملات زیر غور آئے۔ 
اس سے قبل 22 جون کو وزیراعظم ہاؤس میں پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا تھا جس میں قومی سلامتی سے متعلق انہیں بریفنگ دی گئی تھی۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق حتمی فیصلہ آئین کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری سے کیا جائے گا۔

شیئر: