Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے خلاف مقدمے سے دہشت گردی کی دفعہ نکالنے کا حکم

فیصلہ سنانے والے دو رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کی (فائل فوٹو)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف خاتون جج اور پولیس افسران کو دھمکیاں دینے کے کیس سے دہشت گردی کی دفعہ نکالنے کا حکم دیا ہے۔
پیر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف درج دہشت گردی کے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ دیگر دفعات کے تحت چلایا جائے اور دہشت گردی کی دفعہ نکال دی جائے۔
خیال رہے نو اگست کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی گرفتاری کے خلاف نکالی ریلی میں عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی تھی، جس کے بعد ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔
اس مقدمے کو عمران خان کی طرف سے عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات کے تحت متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ دہشت گردی کے قانون کی تشریح کر چکی ہے، بادی النظر میں ایک بھی دفعہ اس مقدمے میں بنتی نظر نہیں آتی۔
چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل رضوان عباسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ خود مان رہے ہیں تفتیش میں تقریر کے علاوہ کچھ سامنے نہیں آیا، جب کچھ سامنے نہیں آیا تو پھر دہشت گردی کا ڈیزائن تو نہ ہوا نہ۔‘ 
پراسیکیوٹر جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’اگر ایس ایچ او کسی کو کہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا تو اس کے سنجیدہ اثرات اور نتائج ہو سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سابق وزیراعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کے بھی اثرات ہیں۔‘

عمران خان نے سرکاری افسران کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دیے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے بیان سے یقیناً افسران کو خطرے میں ڈالا ہے، انہی حقائق کی بنیاد پر تفتیشی افسر نے آئی جی سے دو بار کہا کہ انہیں کیس سے الگ کیا جائے۔
اس سے قبل 15 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے موقع پراسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ’بادی النظر میں عمران خان کا بیان دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا، تقریر کے الفاظ بہت نامناسب تھے لیکن یہ دہشت گردی نہیں۔‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا تھا کہ ’ہم نے گزشتہ سماعت پر پوچھا تھا کہ 7 اے ٹی اے کیسے لگتی ہے؟‘
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ عمران خان نے آئی جی اسلام آباد اور پولیس کے خلاف بات کی تھی اور کہا تھا کہ ’آئی جی شرم کرو، آئی جی اور ڈی آئی جی ہم آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘ 
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا تھا کہ ’اس میں 7 اے ٹی اے کیسے لگ گئی؟‘
پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت میں کہا تھا کہ ’عمران خان نے خاتون جج کا نام لے کر کہا تھا کہ ’شرم کرو، ہم آپ کے خلاف بھی ایکشن لیں گے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ انتہائی نامناسب الفاظ ضرور ہیں لیکن بادی النظر میں عمران خان کا بیان دہشت گردی کی دفعات میں نہیں آتا۔‘
پراسیکیوٹر نے عدالت میں بتایا تھا کہ ’جب وہ شخص سابق وزیراعظم ہو تو پھر اثر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’عمران خان بالآخر جا کر اسی پولیس کے سامنے شامل تفتیش ہوئے ہیں۔‘ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’دہشت گردی کے قانون کو ایسا نہ بنائیں کہ یہ عام قانون بن جائے۔ دہشت گردی کا قانون سنگین دہشت گردوں کے لیے ہے۔‘ 

شیئر: