Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حبیب اللہ آغا افغانستان کے نئے وزیر تعلیم مقرر

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لاکھوں لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
طالبان کے سپریم لیڈر نے اپنے وفادار رکن حبیب اللہ آغا کو افغانستان کا نیا وزیر تعلیم مقرر کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 68 سالہ آغا نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اپنے طور پر کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتے، ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ میں سپریم لیڈر کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق عمل کروں گا۔‘
انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر اپنے ذاتی خیالات بتانے سے انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی تک اس معاملے پر ’کوئی حکم نہیں ملا ہے۔‘
ایک سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لاکھوں لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ طالبان میں بہت سے قدامت پسند افغان علما جدید تعلیم کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول میں افغان امور کے ماہر نشانک موتوانی نے کہا کہ ’حبیب اللہ آغا کی تقرری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ طالبان اپنے وفاداروں کو بڑے عہدوں پر تعینات کر رہے ہیں جو لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھولنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہیں۔‘
بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی شرط رکھی ہے۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی عارضی ہے لیکن انہوں نے اس بندش کے لیے ’فنڈز کی کمی سے لے کر نصاب کو اسلامی خطوط پر دوبارہ ترتیب دینے کے لیے وقت کی ضرورت‘ جیسے بہانوں کا بھی سہارا لیا ہے۔

بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی شرط رکھی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

نئے وزیر تعلیم حبیب اللہ آغا1996 سے 2001 کے درمیان طالبان کے پہلے دور حکومت میں جج تھے۔
طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سخت گیر نظریات رکھنے والے افراد کی حکومت پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ لڑکیاں کو ابھی تک سکولوں میں جانے کی اجازت نہیں جبکہ خواتین کے لیے لازم ہے کہ وہ سر پاؤں تک خود کو ڈھانپیں۔
طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالتے ہوئے لڑکیوں کو سکولوں میں جانے کی اجازت دینے سمیت جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں کیے۔
افغانستان میں تاحال ساتویں سے بارہویں جماعت کی طالبات تعلیم سے محروم ہیں اور ان پابندیوں سے 12 سے 18 برس کی لڑکیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ نے افغان طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو سکولوں سے باہر رکھنے کو شرمناک اقدام قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ساتویں سے بارہویں جماعت کی طالبات کے سکول دوبارہ کھولیں۔

شیئر: