کلام الٰہی کے بعد سب سے زیادہ اہم کلام’’ کلام رسول ‘‘ ہے، کلام نبوی میں بھی کثرت سے اس ذریعۂ تفہیم کو اختیار کیاگیا ہے
* * * *مولانا محمد قمرالزماں ندوی۔ پرتاب گڑھ،ہند* * * *
تشبیہ وتمثیل ہر زبان میں تعبیر وتفہیم اوراظہار وبیان کا ایک مؤثر اور خوبصورت ذریعہ رہا ہے، نیز ہر قسم کی مادی تعلیم وتربیت کی تکمیل تشبیہ و تمثیل سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی لٹریچر خواہ وہ انسانی ہو یا آسمانی ا س سے خالی نہ رہ سکاکیونکہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ کلام الٰہی کے بعد سب سے زیادہ اہم کلام’’ کلام رسول ‘ ‘ہے۔ کلام نبوی میں بھی کثرت سے اس ذریعۂ تفہیم کو اختیار کیاگیا ہے اور بعض اہلِ توفیق نے ان تمثیلات و تشبیہات کو جمع بھی کیا ہے۔ ہم بھی اس مضمون میں احادیث نبویسے صرف چند تمثیلاتی نمونے پیش کررہے ہیں۔ مومن ،مومن کے لئے آئینہ ہے: رسول اللہ نے فرمایا: ’’ تم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا آئینہ ہے، اگر اس میں کوئی برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔‘‘ اس حدیث میں ایک مومن کو دوسرے مومن کے لئے آئینہ قرار دیاگیا ہے۔انسان آئینہ کو اپنی ضرورت سمجھتا ہے، اس میں کوئی عیب ہو تو تقاضۂ محبت ابھرتا ہے۔ نہ انسان اپنی غیبت کرتا ہے، نہ شکوہ شکایت بلکہ اصلاح کی سعی کرتا ہے۔یہی رویّہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ اپنانا چاہیے۔اس تشبیہ کی گہرائی اور گیرائی اور معنویت پر غور کیجیے، اس کے بعد فیصلہ کیجیے کہ دین میں اس سے بہتر اور کوئی تشبیہ ممکن ہے؟ دنیا سے بے رغبتی اور لا تعلقی: رسول اللہ نے ایک موقع پر دنیا سے بے رغبتی اور بے اعتنائی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’ دنیا میں تم اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو یا راہ رو۔‘‘ (بخاری)۔
آپنے یہاں محسوس چیز کو محسوس سے تشبیہ دی ہے۔ دنیا سے انسان کے تعلق کی بے ثباتی اور ضرورت کے مطابق متاعِ دنیا سے نفع اٹھانے اور حرص وطمع سے اجتناب کی تلقین کے لئے اس سے بہتر شاید کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ واعظ بے عمل: اس کے متعلق حضور اکرمنے نہایت لطیف مثال دی ہے، فرمایا: ’’ جو شخص کسی کو نیکی کی تعلیم دے اور خود اس پر عمل نہ کرے اُس کی مثال اس چراغ کی سی ہے جو اوروں کو تو روشنی دے اور اپنے آپ کو جلاتا رہے۔‘‘ حُبّ جاہ ومال: دنیا میں کون انسان ہے، جسے عزت اور دولت محبوب ومرغوب نہ ہو۔ یہ چیزیں صرف مرغوب ہی نہیں بلکہ ان میں ہر روز اضافہ چاہتا ہے اور کوئی مقام ایسا نہیں جہاں یہ ہوس جاکر رک جائے۔ جب یہ محبت روح میں پیوست ہوجائے تو زندگی کا نصب العین بن جاتی ہے اور پھر ہر فتنہ وفساد اسی سے پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انسان سیاست ومذہب کے نئے نئے روپ دھارتا ہے اور ہر راہ سے اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ ہوسِ زر ہو یا ہوسِ اقتدار دونوں انسانیت اور دین کے لئے زہر ہیں اس لئے حضورنے اس کی تمثیل یوں فرمائی: ’’ دو خونخوار بھیڑیوں کا کسی زخم کو چاٹ چاٹ کر خراب کرنا زخم کے لئے اتنا مضر نہیں جتنا مضر ایک مسلمان کے دین کے لئے حب جاہ اور حْب مال ہے۔‘‘(رواہ بزار عن ابن عمر) ۔ نماز اور مغفرتِ گناہ: حضورِ اکرم نے فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارے گھر کے سامنے سے نہر جاری ہو اور ہر روز اس میں5 مرتبہ غسل کیا جائے تو جسم پر ذرہ برابر میل رہ سکتا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: ہرگز نہیں رہ سکتا۔آپ نے فرمایا: ’’یہی مثال نماز پنج گانہ کی ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو دھو دیتے ہیں۔‘‘(رواہ البخاری عن ابی ہریرہ)۔
مذکورہ حدیث میں جو تمثیل وتشبیہ ہے وہ نہایت اعلیٰ اور عمدہ ہے مگر یہ صرف انہی لوگوں کے لئے ہے، جو حقیقتِ صلاۃ سے واقف ہوں۔ نماز ہوتی ہی ہے تطہیرِ قلب ونگاہ کے لئے، اخلاق وسیرت کی بلندی کے لئے، نفس امّارہ کے تزکیہ کے لئے، جو دن رات میں کئی مرتبہ اللہ کے سامنے حاضر ہوکر اپنی بندگی اور عبدیت کا اظہار کرے اوراس کے تقاضوں کو سمجھے، اس کے گناہ دھل جانے میں کیا شک وشبہ ہوکتا ہے لیکن اگر اس کے تقاضوں کو غلط طریقے سے سمجھا جائے تو پھر یہ ہوگا کہ نمازی دل کھول کر ارتکابِ گناہ کرتا جائے گا اور دل ہی دل میں یہ خیال کرے گا کہ جہاں نمازیں پڑھ لیں گناہ معاف ہوگئے۔ یہ زاویۂ نگاہ ایسا ہے جو بجائے پاک کرنے کے اور زیادہ ناپاک کرتا جاتا ہے اور نمازی مستحقِ رحمت ہونے کے بجائے وعید کا مستحق ہوتا جاتا ہے۔ قصور نماز کا نہیں، نمازی کی فطرت واستعداد کا ہے۔ کھانا توانائی کے لئے کھایا جاتاہے لیکن اگر معدہ کی استعداد ہی صحیح نہ ہو تو وہی کھانا زہر بن جاتا ہے، قصور کھانے کا نہیں کھانے والے کی صلاحیت واستعداد کا ہوتا ہے۔ تلاوتِ قرآن اور اثرِصحبت: تلاوت کرنے والوں کی قِسموں کو یوں سمجھئے کہ کوئی قرآن مجید کی تلاوت کرتاہے اور کوئی نہیں کرتا۔ تلاوت کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں مومن متقی بھی ہوسکتے ہیں اور مومن وفاسق بھی، ان میں سے ہر ایک کے لئے حضورنے الگ الگ تشبیہیں دی ہیں۔ ایک مومن قاری کی، دوسری غیر مومن قاری کی، تیسری فاسق قاری کی اور چوتھی فاسق غیر قاری کی۔ اسکے ساتھ ساتھ حضورنے نیک وبد کی صحبت کے اثر کی بھی تمثیلیں بیان فرمائی ہیں۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : ’’جو مومن قرآن حکیم پڑھتا ہو، اس کی مثال اترج (لیموں یا نارنگی) جیسی ہے جس کا مزہ بھی اچھا اور خوشبو بھی اچھی اور جو مومن تلاوت قرآن پاک نہ کرتا ہو وہ گویا چھوہارا ہے، جس کا مزہ تو اچھا ہے لیکن خوشبو کوئی نہیں، وہ فاجر جو قرآن پڑھتا ہو، ایساہے جیسا ریحانہ (چمبیلی) جس کی مہک اچھی اور مزہ کڑوا اور جو فاجر تلاوت قرآن پاک نہ کرتا ہو اس کی مثال حنظلہ (اندرائن) جیسی ہے، جس کا مزہ کڑوا اور بو کوئی نہیں اور صالح کا ہم نشین جیسے مشک پاس رکھنے والا یعنی اگر مشک میسر نہ آئے تو لپٹ تو آہی جائے گی اور بری صحبت میں رہنے والا ایسا جیسا بھٹی والا کہ اگر سیاہی سے بچ بھی گیا تو دھواں تو لگ ہی جائے گا۔‘‘ (رواہ ابوداؤد عن السنن)۔
مومن کی بہترین تمثیل: آں حضرت نے مومنِ مخلص کو سونے کی ڈلی سے مشابہ قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد() کی جان ہے مومن کی مثال اُس سونے کی ڈلی کی سی ہے جس کے مالک نے اس کو تپایا پھر نہ تو اس کا رنگ بدلا اور نہ وزن گھٹا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد() کی جان ہے، مومن کی مثال ٹھیک اس شہد کی مکھی کی سی ہے جس نے عمدہ پھول چوسے، اچھا شہد بنایا اور جس شاخ پر وہ بیٹھی نہ تو اپنے وزن سے اس کو توڑا نہ خراب کیا۔‘‘(مسند احمد)۔ آں حضرت نے یہاں ایک مثال دے کر مومن کی چند صفتیں بیان فرمائی ہیں۔اس کی پہلی صفت یہ ہے کہ اس میں کھوٹ بالکل نہیں نکلتا۔ جتنا اس کو آزماؤ اتنا ہی اور کھرا نکلتا ہے۔ وہ اُس نقلی سونے کی طرح نہیں ہوتا جس کا تپانے سے رنگ بدل جاتا ہے یا اس کا وزن گھٹ جائے۔ اُس کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح صاف ستھری غذا کے سوا کوئی حرام اور مشتبہ کھانا نہیں کھاتا۔
اس کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح جہاں بیٹھتا ہے کسی کو ضرر نہیں پہنچاتا۔ ایک مومن مخلص کی اس سے بڑھ کر کوئی اور تمثیل ہوسکتی ہے؟ کھجور کی طرح: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہنے (ایک بار ان صحابہ سے جو مجلس میں موجود تھے) دریافت فرمایا : ’’ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے جھڑتے نہیں، وہ درخت مسلمان کی مانند ہے، کیا تم لوگ بتاسکتے ہو کہ وہ کون سا درخت ہوسکتا ہے؟‘‘ صحابہ سوچنے لگے اور ایک لمحے کے لئے گویا حاضرین جنگلوں اور صحراؤں میں گھومنے لگے ۔حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید کھجور کا درخت مراد ہولیکن چونکہ ہمارے بڑے خاموش تھے اس لئے مجھے جواب دیتے ہوئے حیا محسوس ہوئی اور میں خاموش رہ گیا۔ پھر صحابہ نے عرض کیا :اللہ کے رسول ! آپ ہی فرمادیں کون سا درخت مراد ہے۔ آپنے ارشاد فرمایا :کھجور کا درخت(فتح الباری )۔ اس حدیث میں آپ نے مسلمانوں کو کھجور کے درخت سے اس لئے مشابہ قرار دیا کہ کھجور کا درخت ہمیشہ ہرا بھرا اور خزاں نا آشنا رہتا ہے اس لئے رسولنے اپنے سوال میں فرمایا کہ وہ درخت ایسا ہے جس کے پتے گرتے نہیں ، گویا اس تشبیہ میں مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں کو بھی ہمیشہ ذکر و تسبیح کے ذریعہ ہرا بھرا رہنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کھجور کا درخت بڑا ہی بابرکت اور نافع درخت ہے، کھجورکے درخت کا پورا وجود انسان کے لئے نفع بخش ہے (اس کے پھل، پتے، بیج، تنہ، جڑ اور سایہ، یہ سبھی انسان کی ضرورت میں کام آتے ہیں) گویا مومن کو اس درخت سے تشبیہ دے کر اس کی نافعیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مومن کو اپنے سماج اور معاشرے کے لئے نافع ہونا چاہیے۔ صدیق و فاروق کی تمثیل: جنگ بدر میں70 افراد قید ہوکر آئے تھے۔ان قیدیوں کے متعلق جب حضورنے مشورہ فرمایا، تو حضرت ابوبکرؓ نے رائے دی کہ فدیہ لے کر ان سب کو رہا کردیا جائے، شاید اللہ تعالیٰ انھیں توبہ کی توفیق دے۔ حضرت عمرؓ بولے کہ ان لوگوں نے حضور کو بے وطن کیا اور جھٹلایا، اس لئے سب کی گردنیں اڑادی جائیں۔ حضور نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! تمہاری مثال تو (حضرت) ابراہیم اور(حضرت) عیسیٰ ؑ جیسی ہے، (حضرت) ابراہیم ؑ نے فرمایا تھا کہ :جو میری پیروی کرے، میرا ہے اور جو نافرمانی کرے، تو اللہ غفورالرحیم ہے،اور عیسیٰؑ نے فرمایاتھا کہ :اگر تو انھیں سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر ان کی مغفرت فرمائے تو عزیز وحکیم ہے۔ اور اے عمر! تمہاری مثال(حضرت) نوح ؑ اور(حضرت) موسیٰ ؑ جیسی ہے ،(حضرت) نوحؑ نے یہ دعا کی تھی کہ :ان کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر زندہ نہ چھوڑ،اور(حضرت) موسیٰ ؑ نے یہ دعا کی تھی کہ :ان کے دلوں میں اور سختی پیداکردے تاکہ عذاب الیم کو دیکھے بغیر یہ ایمان ہی نہ لاسکیں۔‘‘ ابوبکرؓ وعمرؓ کی سیرتوں کے ساتھ سیدنا ابراہیم وعیسیٰ ؑ اور سیدنا نوحؑ وموسیٰ ؑ کی سیرتوں سے جو واقف ہوگا، وہ یہ اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان دونوں بزرگوں کے لئے اس سے بہتر تشبیہ وتمثیل ممکن نہیں۔