’ایران میں احتجاج سے حوصلہ ملا‘، افغان خواتین کے مظاہرے زور پکڑ گئے
’ایران میں احتجاج سے حوصلہ ملا‘، افغان خواتین کے مظاہرے زور پکڑ گئے
ہفتہ 8 اکتوبر 2022 7:05
احتجاج میں بڑے پیمانے پر طالبات بھی شامل ہو رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کابل میں پچھلے ہفتے تعلیمی مرکز میں ہونے والے تباہ کن حملے کے بعد سے خواتین کے مظاہرے زور پکڑ گئے ہیں اور ان میں شامل خواتین کا کہنا ہے کہ ’ایران میں جاری احتجاج سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔‘
عرب نیوز کے مطابق پچھلے ہفتے کابل کے علاقے دشت برچی کے تعلیمی مرکز میں اس وقت ایک خودکش دھماکہ ہوا تھا جب وہاں امتحان ہو رہا تھا۔
واقعے میں کم سے کم 13 افراد ہلاک اور 83 زخمی ہو گئے تھے۔ دھماکے کے وقت 500 کے قریب طلبہ ہال کے اندر موجود تھے۔
نشانہ بننے والوں میں زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق ہزارہ برداری سے تھا جو پہلے بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔
30 ستمبر کو ہونے والے دھماکے کے بعد ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور تشدد کے واقعات سمیت خواتین اور اقلیتوں پر پابندیوں کی مذمت کر رہی ہیں۔
اگرچہ طالبان حکام نے مظاہرین کو منشتر کر دیا تھا تاہم اس کے بعد بھی پچھلےچھ روز کے دوران کابل، ہرات، بامیان، بلخ، ننگرہار اور غزنی کے صوبوں میں مظاہرین سڑکوں پر نکلتے رہے ہیں جبکہ خواتین کا احتجاج بھی سامنے آیا۔
ایک مظاہرے میں شامل 34 سالہ رضیہ محسنی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ کابل میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف احتجاج میں طالبات بھی شامل ہو رہی ہیں، میں تمام بہنوں بھائیوں سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ بھی ہمارا ساتھ دیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران میں حالیہ احتجاج کی لہر سے ہم متاثر ہیں، ایران میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے ان سے ملتے جلتے مسائل یہاں بھی خواتین کو درپیش ہیں۔ پورے ملک سے خواتین کو ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہیے، تاکہ ہماری آواز سنی جائے۔ ہم متحد ہوں تو جیتیں گے۔‘
افغانستان کے پڑوسی ملک ایران میں ستمبر کے وسط سے خاتون کی ہلاکت کے خلاف شدید احتجاج ہو رہا ہے ایک دہائی سے زائد عرصے کا سب سے بڑا اختلاف رائے کا اظہار ہے۔
پولیس حراست میں مہسا امینی نامی خاتون کی ہالکت کے بعد دارالحکومت کے ساتھ ساتھ 31 صوبوں تک احتجاج پھیلا، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
افغان کارکن زرمینہ شریفی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے لیے ایران کا احتجاج مزاحمت اور بیداری کی علامت ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تعلیمی مرکز پر حملے میں ہماری بہنیں ہلاک ہوئیں، ہم اس بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی مراکز کو محفوظ بنائیں۔‘
دوسری جانب فورسز خواتین کو منشتر کر رہی ہیں کیونکہ پچھلے سال ستمبر سے قانون بنایا گیا تھا کہ مظاہرے سے قبل اجازت لینا ضروری ہو گا تاہم خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آواز اٹھاتی رہیں گی۔
حفیظہ جامی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم اپنی بہنوں کی ہلاکتوں پر خاموش نہیں رہ سکتیں، ہمیں اپنے حقوق کا تحفظ چاہیے، ہم کمزوروں کے لیے آواز اٹھا کر کوئی غلط کام نہیں کر رہیں۔‘