ریال لوگو: عالمی مالیاتی استحکام کی جانب ایک اہم قدم
ریال لوگو: عالمی مالیاتی استحکام کی جانب ایک اہم قدم
پیر 10 مارچ 2025 12:20
ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگو کے اجرا سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا (فوٹو: روئٹرز)
سعودی عرب اپنی کرنسی کے لیے خصوصی لوگو متعارف کرانے جا رہا ہے، جس کو سرمایہ کاروں نے ایک دانشمندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
عرب نیوز نے اس کے حوالے سے مالی امور کے ماہرین اور سرمایہ کاروں سے بات کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ معیشت کو جدت کی طرف لانے کا اشارہ اور اس سے عالمی طور پر کرنسی کی شناخت میں اضافہ ہو گا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا۔‘
مملکت ایک عالمی مالیاتی مرکز کے طور پر سامنے آنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ اقدام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ یہ نشان عربی خطاطی سے لیا گیا ہے جو کہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے اور یہی ملک کی آگے بڑھتی معشیت کا کلیدی نکتہ ہے۔
20 فروری کو یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ شاہ سلمان نے لوگو کی منظوری دے دی ہے جس کو سعودی مرکزی بینک نے ’ملکی کرنسی کے ارتقا کے حوالے سے ایک نیا باب‘ قرار دیا تھا۔
اسی لوگو کو ملکی اور بین الاقوامی طور پر تجارتی لین دین کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
سعودی عرب کے مرکزی بینک جس کو ساما کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ نئے لوگو کو فوری طور پر متعارف کرایا جائے گا اور مالیاتی لین دین اور مختلف ایپلی کیشنز کے ساتھ بتدریج ہم آہنگ کیا جائے گا۔
فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹیو کے سربراہ تیمر السید نے عرب نیوز کو بتایا کہ یہ اقدام سعودی ویژن 2030 سے مطابقت رکھتا ہے جو کہ عالمی مالیاتی مرکز بننے کے لیے ہے۔
سعودی عرب کے مرکزی بینک نے بھی اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
ان کے مطابق ’یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا کو مالی مسائل کا سامنا ہے جیسے افراط زر، شرح سود میں تبدیلی وغیرہ جبکہ عالمی تجارت کے پہلو بھی بدل رہے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں کرنسی کا کچھ الگ اور قابل شناخت ہونا ایک ایسی چیز ہے جس کی ضرورت پہلے کبھی اتنی نہیں رہی۔‘
اسی طرح دوسرے مہمان گلف مانیٹری کونسل میں سابق مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے یوسف سیدی سے جب پوچھا گیا کہ کرنسی کے حوالے سے کوئی نئی علامت عالمی مارکیٹس میں اس کی حیثیت پر کس طرح سے اثرانداز ہوتی ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک دانش مندانہ قدم ہوتا ہے۔
ریال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس میں جدید چیزوں کو شامل کیے جانے سے مملکت کا تاثر ایک روشن خیال، مثبت اثر رکھنے والی معشیت کے طور پر ابھرتا ہے۔
انہوں نے بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو یہ نیا نشان ایسا پیغام دے سکتا ہے کہ سعودی عرب کے مالی معاملات عالمی معیارات سے مطابقت رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اس سے سعودی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے اعتماد بڑھ سکتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی راہ ہموار ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک قابل شناخت علامت عالمی مالیاتی لین دین میں آسانی لائے گا، غلطیوں کا احتمال کم ہو گا اور عالمی طور پر سعودی کرنسی کے حوالے سے معلومات میں اضافہ ہو گا۔
ان کے مطابق ’جیسا کہ ڈالر، یورو اور ین فوری شناخت رکھتے ہیں، اسی طرح شامل کیے جانے والے نئے روایتی نشان سے مالیاتی پلیٹ فارمز، معاشی دستاویزی امور اور میڈیا کوریج میں سعودی کرنسی کو نمایاں کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
اسی طرح ایف آئی آئی انسٹیٹیوٹ کے تیمر السید کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب، عرب اور اسلامی دنیا میں ہمیشہ سے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس کی قیادت سمجھتی ہے کہ اس کی شناخت معاشی ترقی سے الگ نہیں ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عربی کے الفاظ کے استعمال سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جدیدیت کا مطلب یہ نہیں روایت کو یکسر چھوڑ دیا جائے۔
ان کے مطابق ’درحقیقت بہت زیادہ کامیاب معیشتیں ترقی اور ورثے میں توازن رکھتی ہے، جس کی مثال کے لیے جاپان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ جدیدیت کے ساتھ معاشی دنیا کی قیادت بھی کر رہا ہے جبکہ اپنی ثقافتی پہچان بھی برقرار رکھی ہے۔ سعودی عرب بھی ایسے ہی راستے پر چل رہا ہے اور معشیت کو جدیدیت اور روایات سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔‘