نئی فورسز کے باوجود پشاور میں سٹریٹ کرائمز کیوں بڑھ رہے ہیں؟
نئی فورسز کے باوجود پشاور میں سٹریٹ کرائمز کیوں بڑھ رہے ہیں؟
بدھ 19 اکتوبر 2022 5:47
فیاض احمد -اردو نیوز، پشاور
پشاور میں سٹریٹ کرائمنز کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف فورسز تشکیل دی گئیں (فائل فوٹو: خیبر پختونخوا پولیس)
پشاور میں سٹریٹ کرائم کے واقعات رُکنے کا نام نہیں لے رہے، ابابیل سکواڈ اور سٹی پیٹرولنگ پولیس کی کارکردگی پر سوالات اُٹھنے لگے۔
خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور شہر گنجان آباد ہونے کی وجہ سے جرائم کا مرکز بنتا جارہا ہے خصوصاً سٹریٹ کرائم کی شرح دیکھی جائے تو اس میں روزبروز اضافہ نظر آرہا ہے۔
پولیس کی اپنی رپورٹ کے مطابق ’گذشتہ سال کی نسبت چوری اور راہزنی کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ اگست 2022 تک کے واقعات پر مبنی ہے۔
اس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ سال موٹر سائیکل چھیننے کے 33 واقعات پیش آئے جبکہ رواں سال کے 8 ماہ میں 83 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اسی طرح گذشتہ برس گاڑی چھیننے کے 10 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ رواں سال 19 شہریوں کو گاڑیوں سے محروم کیا گیا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ’گذشتہ سال موٹرسائیکل چوری کے 117 واقعات جبکہ رواں سال 303 کیسز رپورٹ ہوئے۔
رواں سال ڈکیتی کے 203 اضافی واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ رواں سال چھینا جھپٹی کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعد 100 سے زائد ہے۔
پشاور میں موبائل فون چھیننے کے واقعات میں اضافہ
سٹریٹ کرائم میں موبائل فون چھیننے کے واقعات سب سے زیادہ پیش آرہے ہیں۔ اس حوالے سے گلبہار، حیات آباد، فقیرآباد، خیبر بازار اور گنج روڈ کو حساس قرار دیا گیا ہے جہاں آئے روز موبائل چھیننے کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
راہزنی کا شکار شہریوں کا موقف
پشاور کے سینیئر فوٹو جرنلسٹ مشرف خان کے ساتھ 16 اکتوبر کو ضمنی الیکشن کے موقع پر راہزنی کی واردات ہوئی، وہ ڈیوٹی کے بعد اپنے گھر جارہے تھے کہ موٹرسائیکل سواروں نے انہیں روک کر موبائل فون چھین لیا۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’موبائل فون چھیننے والے موٹرسائیکل سوار نوجوان تھے اور ان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ انہوں نے مجھ سے موبائل مانگا جو میں نے مجبوراً دے دیا کیونکہ آج کل مزاحمت پر راہزن گولی بھی مار دیتے ہیں۔‘
نوجوان جنید خان طورو بھی چند ماہ قبل اپنے علاقے میں ہی راہزنوں کے ہتھے چڑھ گئے اور موبائل فون سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے مطابق ’وہ فون پر بات کر رہے تھے کہ اس دوران موٹرسائیکل سوار آئے اور اسلحہ دکھا کر فون چیھن کر لے گئے۔‘
’راہزن اب تو گولی بھی مارنے لگے‘
پشاور میں جرائم پیشہ افراد اب دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں پر گولی بھی چلانے لگے ہیں، ایسا ہی ایک واقعہ حیات آباد میں ستمبر میں ڈاکٹر فہیم اللہ کے ساتھ پیش آیا، راہزنوں نے انہیں لُوٹنے کے ساتھ زخمی بھی کردیا۔
پشاور کے شہری محمد رفیق کے ساتھ بھی راہزنی کا واقعہ پیش آیا تاہم وہ فائرنگ سے بال بال بچ گئے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اب تو خوف کی وجہ سے موبائل رات کو باہر نہیں لے جا سکتے، پولیس سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی بنائے۔‘
پشاور میں سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف ناموں سے کئی فورسز بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی نے سنہ 2015 میں مددگار فورس کے نام سے ایک سپیشل پولیس سکواڈ قائم کیا تھا جس کا مقصد شہریوں کو بروقت مدد فراہم کرنا تھا، ابتدائی طور پر اس فورس میں 20 رائیڈرز شامل کیے گئے تھے مگر یہ تجربہ بھی سٹریٹ کرائم کو روکنے میں کامیاب نہ ہوا۔
خیبر پختونخوا پولیس میں ایک اور تجربہ سٹی پیٹرولنگ پولیس کے نام سے 10 نومبر 2016 کو کیا گیا۔ اس فورس میں 20 نئی گاڑیاں شامل کی گئیں، ہر گاڑی میں چار پولیس اہلکار سوار ہو کر شہری علاقوں میں گشت کرنے لگے۔
سٹی پیٹرولنگ پولیس فورس میں تمام اہلکاروں کو کیمرے اور گاڑیوں کی چیکنگ کے لیے موبائل فونز سمیت جدید سہولیات فراہم کی گئیں۔
ابتدائی طور پر یہ فورس کافی بہتر طریقے سے کام کرتی رہی اور راہزنی اور جرائم کے دیگر واقعات میں متحرک نظر آئی مگر اس کے باوجود چوری اور راہزنی کے واقعات کا سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھنے لگا۔
سنہ 2019 میں سٹی پیٹرولنگ پولیس کی استعداد بڑھانے کے لیے 20 موٹرسائیکل رائیڈرز بھی اس میں شامل کیے گئے جبکہ خواتین کی مدد کے لیے لیڈی پولیس رائیڈرز بھی تعینات کی گئیں۔
نئی فورس کی ضروت کیوں پیش آئی؟
خیبر پختونخوا پولیس کے آئی جی معظم جاہ انصاری نے سٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی شرح دیکھ کر ایک اور فورس کے قیام کا فیصلہ کیا جس کا نام ابابیل سکواڈ رکھا گیا۔
ابابیل فورس کا افتتاح 15 دسمبر 2021 کو وزیراعلٰی محمود خان نے کیا، اس نئے سکواڈ میں پولیس اہلکاروں کو 200 جدید ہیوی بائیکس دی گئیں اور ایلیٹ فورس کے 800 اہلکار تعینات کیے گئے۔
ابابیل سکواڈ میں 400 اہلکار پہلی شفٹ جبکہ 400 اہلکار ہی رات کی شفٹ میں فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ ابابیل فورس پر یومیہ ایک لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ’ابابیل فورس بہتر پولیسنگ اور سٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے بنائی گئی ہے تاہم یہ فورس بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر آئے روز پشاور میں وارداتوں کی ویڈیوز شیئر ہوتی ہیں جس میں شہریوں کو دن دیہاڑے لُوٹتے دیکھا جاتا ہے مگر ابابیل فورس کے اہلکار دور دور تک نظر نہیں آتے۔
چند روز قبل ڈاکو پشاور کے مصروف ترین بازار سے دن دیہاڑے شہری سے موٹرسائیکل سوار 25 تولے سونا چھین کر لے گئے مگر ابابیل فورس نظر نہ آئی۔
ایک شہری کلیم اللہ کے مطابق ’ابابیل فورس کی دو بائیکس گشت پر ہوتی ہیں مگر ابھی تک اس کے اہلکار کسی راہزن کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے، چند چھوٹے چوروں کو پکڑنے کے علاوہ ان کی کارکردگی نظر نہیں آئی۔‘
ایس ایس پی آپریشنز پشاور کا موقف
ایس ایس پی آپریشنز پشاور کاشف آفتاب عباسی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’سٹریٹ کرائم میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ اب یہ واقعات رپورٹ زیادہ ہورہے ہیں۔‘
’ہم خود چاہتے ہیں کہ سٹریٹ کرائمز رپورٹ ہوں تاکہ ہمارے پاس صحیح اعدادوشمار آجائیں اور ہم اسی حساب سے حکمت عملی اپنائیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم دوسری جانب شہریوں کو آگاہی دے رہے ہیں کہ اگر آپ کی ایف آئی آر نہیں ہوتی تو وہ کنٹرول روم کال کریں اور متعلقہ ایس ایچ او یا محرر کے خلاف شکایت کریں۔‘
ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق ’ابابیل فورس ایک نیا تجربہ ہے اور اس میں انتظامی کمزوریاں ہوسکتی ہیں تاہم ان کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے تمام ایس پیز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے روزانہ ایک میٹنگ ضرور کریں۔‘
ایس ایس پی آپریشنز پشاور کاشف آفتاب عباسی کا کہنا تھا کہ ’سٹریٹ کریمینلز کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل تشکیل دے دیا گیا ہے جس کا ابتدائی کام جرائم پیشہ افراد پر نظر رکھنا اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔ جو ملزمان جیل سے رہا ہوتے ہیں ان پر نظر رکھی جارہی ہے کہ وہ واپس آکر کن کن افراد سے مل رہے ہیں۔‘
’ہمارے لیے اس وقت سب سے بڑی مشکل شہر کے گلی محلوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی عدم دستیابی ہے کیونکہ وارداتیں زیادہ تر شہر کے اندرون علاقوں میں پیش آتی ہیں۔‘
ایس ایس پی آپریشنز پشاور نے مزید بتایا کہ ‘ہم نے متعدد گینگز پکڑے ہیں جو موبائل فون چھین کر افغانستان میں ڈیلرز کو بیچ دیتے ہیں۔‘
سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کیوں؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے کرائم رپورٹر عدنان طارق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سٹریٹ کرائم پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے پولیس نے ہمیشہ نئی حکمت عملی اپنائی تاہم 100 فیصد کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ان جرائم کے بڑھنے کی بڑی وجہ آبادی میں اضافہ ہے، دوسری جانب پولیس کو نفری کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ وزیراعلٰی محمود خان کی ہدایت پر ابابیل فورس بنائی گئی مگر یہ تجربہ بھی توقعات کے مطابق کامیاب نہ ہوسکا۔‘
عدنان طارق کا کہنا تھا کہ ’پشاور میں موبائل چھیننے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ناکہ بندیوں کے باوجود بھی سٹریٹ کریمینلز ہاتھ نہیں آتے۔‘
’ایس ایس پی آپریشنز پشاور نے پشاور کے کچھ علاقے حساس قرار دیے ہیں جہاں شام 7 سے رات 10 تک ایس ایچ او اور ڈی ایس پی خود پیٹرولنگ کرتے ہیں، ایس ایس پی آپریشنز خود اس کی نگرانی کررہے ہیں۔‘
صحافی عدنان طارق کے مطابق ’رواں ماہ پولیس نے سٹریٹ کرائم کے دو بڑے گینگز کے 15 ملزمان پکڑے ہیں جن سے قیمتی موبائل فونز بھی برآمد ہوئے۔‘
کرائم رپورٹر احتشام خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کریمینلز ابابیل فورس کی کمزوری کا فائدہ اٹھارہے ہیں اور وہ یہ کہ اس فورس میں بھرتی ہونے والے اہلکار مقامی نہیں ہیں۔‘
’ان اہلکاروں کو نہیں معلوم کہ کون سی گلی کہاں نکلتی ہے جبکہ جرائم پیشہ افراد اس شہر کے چپے چپے کو جانتے ہیں وہ واردات کرنے کے بعد تنگ گلیوں سے باآسانی نکل جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’کچھ نوجوان پیشہ ور مجرم ہیں جبکہ بعض مجبوری کے تحت ایسا کررہے ہیں، ان میں زیادہ تر آئس کا نشہ کرنے والے افراد بھی شامل ہیں جو بغیر کسی خوف کے اہم شاہراہوں پر وارداتیں کرتے ہیں۔‘
صحافی احتشام خان نے بتایا کہ ’جیل سے رہا ہونے والے ملزمان انتہائی چالاک ہوتے ہیں اور جیل سے رہا ہوتے وقت پولیس اہلکاروں کو رشوت دے کر غلط پتہ لکھواتے ہیں جس سے سے بعد میں پولیس انہیں ڈھونڈ نہیں پاتی۔‘
واضح رہے کہ پولیس شہریوں کی فوری مدد کے لیے دو الگ الگ موبائل ایپلی کیشنز بھی متعارف کرا چکی ہے اور اس مقصد کے لیے الگ سے کنٹرول سینٹر بھی بنایا گیا۔