Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی بڑھتی مقبولیت: پی ڈی ایم اب انتخابی اتحاد بن رہا ہے؟

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد مضبوط ہے اور وہ مشاورت سے فیصلے کرکے مستقبل میں بھی کامیابی حاصل کریں گے۔ (فوٹو: ن لیگ ٹوئٹر)
سابق وزیراعظم عمران خان کی بڑھتی مقبولیت اور عام انتخابات کی قریب آتی ہوئی تاریخ کے تناظر میں دو سال سے قائم حکمران جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مستقبل  کی سیاسی حکمت عملی اور افادیت پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں ملک کے تین صوبوں میں قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ نشستوں پر عمران خان کی کامیابی اور حکمران اتحاد کے امیدواروں کی ناکامی کے بعد وزیراعلٰی پنجاب پرویز الہی کا کہنا ہے پی ڈی ایم کا انجام خطرناک ہے اور ان کی تباہی ایک ماہ میں نظر آ جائے گی۔
تاہم جمعرات کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے  پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد مضبوط ہے اور وہ مشاورت سے فیصلے کرکے مستقبل میں بھی کامیابی حاصل کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعے کو مولانا فضل الرحمن صاحب کی زیر صدارت ہونے والا پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس عمران خان کی ضمنی الیکشن میں کامیابی یا ان کے لانگ مارچ کی وجہ سے ہی نہیں بلایا جا رہا بلکہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مشاورت سے ہی چلتی ہیں اور یہ اجلاس اسی سلسلے میں طلب کیا جا رہا ہے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ یہ اجلاس اور زیادہ تواتر سے منعقد ہونے چاہییں تاکہ تمام معاملات پر اتفاق رائے قائم رہے۔‘
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کو پی ڈی ایم میں شامل کرنے پر غور کے حوالے سے پی ڈی ایم کے رہنما شاہ اویس نورانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ چند ہفتے قبل ہونے والے اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے رائے دی تھی کہ اتحاد کو ہر مہینے کم از کم ایک بار ملنا چاہیے  تاکہ تمام ایشوز پر بات چیت ہوتی رہے۔
اجلاس کے ایجنڈے میں عمران خان کے مارچ کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے امن عامہ کی صورتحال، معیشت اور دیگر معاملات پر بات چیت ہوگی اور توقع ہے کہ نواز شریف بھی ویڈیو لنک پر اس میں شریک ہوں گے۔
حالیہ انتخابات میں پی ڈی ایم کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ بہتری آ جائے گی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم حکومت میں آگئی۔ (فوٹو: ن لیگ ٹوئٹر)

شاہ اویس نورانی کا کہنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات میں انہیں نہیں لگتا کہ پی ڈی ایم ایک انتخابی اتحاد میں بدلے گی کیونکہ جن پارٹیوں کی اپنے صوبوں میں اکثریت ہے وہ اپنے حلقے اپنے پاس ہی رکھیں گی تاہم کچھ جگہوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)  کو بھی پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں بلانے کی تجویز دی گئی ہے کیونکہ یہ تمام جماعتیں اب حکمران اتحاد کا حصہ ہیں اور تجویز ہے کہ سب کو آن بورڈ لے لیا جائے۔
تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ پیپلز پارٹی چونکہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اس لیے وہ صرف حکمران اتحاد کے اجلاسوں میں شریک ہوتی ہے اور پی ڈی ایم کے علیحدہ اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتی۔
’پی ڈی ایم انتخابی اتحاد بن سکتا ہے‘
پی ڈی ایم کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم جب بنایا گیا تھا تو اس کا مقصد اس وقت کی حکمران جماعت تحریک انصاف کا مقابلہ کرنا تھا کیونکہ عمران خان کے ون پارٹی رجیم کے نظریے سے اپوزیشن جماعتوں کے وجود کو خطرہ لاحق تھا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں نے  پی ڈی ایم نے اپنی بقا کی خاطر تشکیل دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم حکومت میں آ گئی اور اس بات کا امکان کم تھا کہ یہ بطور انتخابی اتحاد اگلے الیکشن میں میدان میں اترے۔
تاہم ضیغم خان کے مطابق عمران خان کی حالیہ کامیابیوں اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب یہ امکانات پھر روشن ہو گئے ہیں کہ اپنی سیاسی بقا کے لیے پی ڈی ایم جماعتیں اس کو انتخابی اتحاد میں بدل دیں۔

شیئر: