بلوچستان: جان پر کھیل کر اڑھائی سالہ بچی کو بچانے والا نوجوان
بلوچستان: جان پر کھیل کر اڑھائی سالہ بچی کو بچانے والا نوجوان
اتوار 23 اکتوبر 2022 13:53
زین الدین احمد، -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان کے ضلع بارکھان کے ایک دور دراز گاؤں میں اڑھائی سالہ بچی حوا گھر کے قریب کھیلتے ہوئے اچانک گہرے اور تنگ ٹیوب ویل کے بور میں جا گری۔
چار گھنٹوں سے زائد کی کوششوں کے بعد گھر والوں کی اُمید ختم ہوگئی کہ حوا کو زندہ تو دور شاید مردہ بھی نہ نکالا جاسکے، کیونکہ بلوچستان میں اس سے پہلے ٹیوب ویل کے بور میں گرنے والے کسی بچے کو زندہ نہیں نکالا جا سکا تھا۔
تب علاقے کے ایک نوجوان نے اپنی جان پر کھیل کر کنویں میں اترنے کا فیصلہ کیا اور حوا کو ’موت کے کنویں‘ سے زندہ نکال کر انسانی ہمدردی کی مثال قائم کردی۔
یہ نوجوان 25 سالہ فضل الرحمان تھا جس کا اپنا گھر حالیہ بارشوں اور سیلاب سے گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
اردونیوز سے بات کرتے ہوئے بارکھان کے علاقے ناہڑ کوٹ کے رہائشی فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت تباہ شدہ گھر کی دوبارہ تعمیر کا کام کر رہے تھے کہ چچا آئے اور بتایا کہ قریب کے علاقے میں ایک چھوٹی بچی بور میں گر گئی ہے۔ وہ کام چھوڑ کر وہاں چلے گئے۔
فضل الرحمان کے مطابق ’جب میں وہاں پہنچا تو لوگوں کا ہجوم جمع تھا، لیویز اہلکار بھی موجود تھے سب کے چہروں پر مایوسی تھی۔ بچی کے والد اور باقی رشتہ دار رو رہے تھے۔‘
بارکھان سے لیویز ٹیم اور قریبی ضلع کوہلو سے لیویز کی کوئیک رسپانس فورس کے انچارج شیر محمد مری بھی وہاں پہنچے تھے۔ شیر محمد مری نے بتایا کہ ’ڈی جی لیویز نے ہمیں بتایا کہ کوئٹہ سے پی ڈی ایم اے کی ٹیم پہنچنے میں بہت وقت لگے گا اس لیے ہمیں وہاں پہنچنے کی ہدایت کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بور 250 سے 280 فٹ گہرا تھا اور خشک ہوگیا تھا، لیکن حالیہ بارشوں کے بعد اس میں پانی جمع ہوگیا تھا۔
’ہم نے ٹارچ کی روشنی کی مدد سے دیکھا تو بچی 50سے 60 فٹ کی گہرائی میں نظر آرہی تھی کیونکہ نیچے بور کی چوڑائی بہت کم ہوگئی تھی اور بچی مزید نیچے گرنے سے بچ گئی۔‘
شیر محمد مری کے مطابق پانی میں آڈھی ڈوبی ہوئی حوا ہاتھ ہلا رہی تھی اور انہیں زندہ نکالنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہو رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پہنچنے سے پہلے علاقے کے ایک نوجوان اور بعد میں ہماری کیو آر ایف ٹیم کے ایک اہلکار نے نیچے اترنے کی کوشش کی، لیکن چند فٹ نیچے جاکر بور کی چوڑائی اتنی کم تھی کہ دونوں وہاں پھنس گئے۔‘
شیر محمد کے مطابق چوڑائی کم ہونے کی وجہ سے مزید نیچے نہیں جاسکتے تھے اس لیے ہم نے انہیں واپس کھینچا کہ کہیں بچی کی جان جاتے ہوئے کہیں کسی اور جان نہ چلی جائے۔
بچی کے والد دین محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں گھر سے 50 کلومیٹر دور تھا، لیکن اطلاع ملتے ہی موٹرسائیکل لے کر پہنچا۔ اس وقت تک دو گھنٹے گزرچکے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دو بندوں نے نیچے اترنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اس کے بعد تو ہماری ساری امیدیں ختم ہوگئی تھیں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ حوا کا زندہ نکالنا مشکل ہے اگر اس کی موت ہوگئی تو اتنی گہرائی سے لاش کیسے نکالیں گے؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس دوران ایک نوجوان فضل الرحمان آیا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ دبلا پتلا تھا اس نے کہا کہ وہ نیچے اترے گا۔‘
فضل الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بچی کے والد اور رشتہ داروں کی مایوسی اور بے بسی دیکھ کر میں نے کلمہ پڑھ کر کنویں میں جانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے اترنے والے دو بندے نسبتاً مجھ سے صحت مند اور موٹے تھے جبکہ میں ان کی نسبت دبلا پتلا تھا اس لیے مجھے امید تھی کہ بچی تک پہنچ پاؤں گا۔‘
لیویز انچارج شیر محمد نے بتایا کہ لیویز کی کیو آر ایف ٹیم نے فضل الرحمان کو رسیوں سے باندھ کر نیچے اتارا۔ ہم نے انہیں تین رسیاں باندھیں تاکہ اگر ایک ٹوٹ جائے تو دوسری کی مدد سے انہیں کھینچ سکیں۔
فضل الرحمان کے بقول بور شروع میں دو سے تین فٹ چوڑا تھا جب درمیان تک پہنچا تو وہاں چوڑائی ایک فٹ تک آگئی تھی۔ پتھروں کی وجہ سے بور انتہائی تنگ ہوگیا تھا۔ میرے بازو پھنس رہے تھے۔ باقی دو لوگ بھی اسی جگہ آ کر پھنس گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ آگے جانا بہت مشکل ہے، وہاں اندھیرا چھا گیا تھا اور ڈر بھی لگ رہا تھا کہ یہاں سے نیچے جاکر شاید زندہ نہ نکل سکوں۔ پھر میں نے اللہ کا نام لیا اور ہمت کر کے مزید کوشش کی اور اس تنگ جگہ سے آگے نکل گیا وہاں چوڑائی کچھ زیادہ ہوگئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں بچی کے قریب پہنچا تو میں پانی میں ڈوب رہا تھا۔ میں نے آوازیں لگائیں کہ مجھے کچھ اوپر کھینچیں مگر اوپر بہت سے لوگ جمع تھے ان کا شور تھا اور میری آواز ریسکیو ٹیم تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ میں نے پھر زور سے آواز دینا شروع کی اور رسی ہلانا شروع کیا تب جا کر انہوں نے مجھے اوپر کھینچا۔‘
انہوں نے کہا کہ بور بہت گہرا تھا مگر خوش قسمتی سے بچی تقریباً ساٹھ فٹ کی گہرائی میں بور کے فلٹر پائپ کی وجہ سے پھنس گئی تھی اور مزید نیچے نہیں گری۔
انہوں نے بتایا کہ اتنی گہرائی میں بچی کو زندہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی۔ اگر 20 سے 25 منٹ اور لگ جاتے تو شاید بچی زندہ نہ بچ پاتی، کیونکہ ریسکیو کی کوشش کے دوران اوپر سے پتھر گررہے تھے جس سے وہ زخمی بھی ہوگئی تھی۔
’خود کو سنبھالنے کے بعد بچی کو مضبوطی سے پکڑ کر میں نے رسی اوپر کھینچنے کا کہا۔ واپسی میں بھی کئی جگہ پھنس گئے، لیکن خوش قسمتی سے ہم دونوں زندہ سلامت باہر نکل آئے۔‘
فضل الرحمان نے کہا کہ ’بچی کو زندہ بچانے پر میں بہت خوش ہوا شاید ہی زندگی میں پہلے میں نے کبھی اتنی خوشی اور سکون محسوس کیا۔‘
فضل الرحمان 12 ہزار روپے کی تنخواہ پر کام کرتے ہیں اور باقی اوقات میں کھیتی باڑی کر کے گھر کا گزر بسر کرتے ہیں۔ لیویز انچارج اور ضلعی انتظامیہ نے فضل الرحمان کی بہادری کو سراہتے ہوئے ان کے لیے انعام کا اعلان کیا ہے۔
حوا کے والد دین محمد نے کہا کہ ’لیویز ٹیم نے بہت مدد کی جبکہ فضل الرحمان ہمارے لیے فرشتہ ثابت ہوا، وہ نہ ہمارے کوئی جاننے والے تھے اور نہ ہی ہم زندگی میں پہلے کبھی انہیں ملے تھے، لیکن انہوں نے اللہ کی رضا کے لیے ہماری بیٹی کی جان بچائی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے خوشی میں فضل الرحمان کو گھر ساتھ چلنے اور کھانے کی دعوت دی، لیکن اس نے پانی تک نہیں پیا اور کہا کہ انہوں نے ایسا صرف انسانیت کی خاطر کیا۔ ہم اس نیکی کا کوئی صلہ نہیں دے سکتے لیکن دل سے دعائیں دے سکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان میں مشینری کی مدد سے سینکڑوں فٹ گہرے ٹیوب ویل کھود کرزراعت اور پینے کا پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران خشک سالی کی وجہ سے یہ ٹیوب ویل خشک ہوگئے ہیں۔ یہ خشک ٹیوب ویل ایک طرح سے موت کے کنویں بن رہے ہیں کیونکہ ان میں گر کر اب تک کئی افراد کی موت ہوچکی ہے۔
رواں سال مارچ میں قلعہ سیف اللہ میں آٹھ سالہ بچہ ٹیوب ویل میں گرا اور 18 گھنٹوں تک وہیں پھنسا رہا، لیکن اسے زندہ نہ نکالا جاسکا۔
اکتوبر 2015 میں قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں 10 سالہ عبداللہ ایک خشک ٹیوب ویل میں گرا تو اسے تین دن کی جدوجہد کے بعد بھی زندہ اور نہ ہی مردہ نکالا جاسکا۔ جس کے بعد اسی ٹیوب ویل کے اوپر ان کی قبر بنا دی گئی۔
اسی طرح 2017 میں خضدار کے علاقے وڈھ میں ٹیوب ویل میں گرنے والی آٹھ سالہ بچی کی لاش کو 13 دنوں تک بھاری مشینری کے ذریعے کھدائی کرنے کے بعد نکالا گیا۔
کوئٹہ، خضدار، مستونگ، قلات اور پشین سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں درجنوں حادثات کے باوجود بھی حکومت نے ایسے حادثات کے تدارک یا پھر ایسی کسی ہنگامی صورتحال میں ریسکیو کے لیے ضروری آلات کی خریداری اور اہلکاروں کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔
کوئٹہ میں رواں سال اگست میں کنویں میں اترنے والے ایک لڑکے کی جان بچاتے ہوئے مقامی نوجوان بالاچ نوشیروانی خود جان کی بازی ہار گیا۔ لواحقین نے ریسکیو ٹیم بھیجنے میں تاخیر کے سبب اس موت کے لیے پی ڈی ایم اے کو ذمہ دار قرار دیا۔ا