Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیا؟

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں شرکت ذاتی حیثیت میں نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی)
مستعفی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وہ ججز تعیناتی کی موجودہ پارٹی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتے اور مستعفی ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔
اپنے استعفے سے متعلق ہونے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ میں ذاتی طور پر ان ججز کی تعیناتی کے خلاف تھا۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں شرکت ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ پارٹی پالیسی اور حکومتی فیصلے کے تحت بطور وزیر قانون کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے استعفے کی وجہ تو یہی ہے، تاہم عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں میری موجودگی میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں میں ٹویٹ کرچکا ہوں۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعروں کے وقت اعظم نذیر تارڑ سٹیج پر موجود تھے اور سوشل میڈیا پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکاء کے ایک مختصر گروہ کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ جذباتی نعرہ بازی کرنے والے حکومتی اقدامات اور اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بھی بھول گئے۔ ہم سب ایک مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں۔‘
دوسری جانب کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اعظم نذیر تارڑ کے استعفے کی ایک وجہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعرے اور ان کی وہاں موجودگی بھی تھی۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں احسن بھون نے کہا کہ ’میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اعظم نذیر تارڑ ججز تعیناتی کے معاملے میں سنیارٹی کے اصول کے پابند ہیں، لیکن ان کی حکومت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے نامزد ججوں کی حمایت کرنے پر رضا مند ہو چکی تھی۔ اس لیے انھوں جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ان کے حق میں ووٹ دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں کسی حد تک معلوم تھا کہ اعظم نذیر تارڑ مستعفی ہو جائیں گے کیونکہ وہ  بار کے موقف کے حامی ہیں۔‘
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہونے والے واقعے سے متعلق سوال پر احسن بھون نے کہا کہ ’مجھے اتنا تو معلوم ہے کہ ان پر دباؤ تھا اور ان کے استعفے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، لیکن کسی جگہ پر بھی اعظم نذیر تارڑ نے خود سے اس دباو یا وجہ کا ذکر نہیں کیا۔‘
عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی منتظم منیزے جہانگیر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اعظم نذیر تارڑ نے فون پر ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وہ کہہ رہے تھے لاہور پہنچ کر بات کروں گا اور صورت حال بتاوں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی اس حوالے سے کچھ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے استعفی کیوں دیا، کیونکہ وہ ایک وکیل بھی ہیں اور بار کا ججز تعیناتی اور سنیارٹی کے معاملے پر طویل عرصے سے ایک موقف ہے تو ممکن ہے کہ وجہ وہی ہو، لیکن کم از کم جو میری ان سے گفتگو ہوئی اس حد تک چیزیں واضح نہیں ہیں۔‘

چیف جسٹس کی جانب سے نامزد چار میں سے تین ججوں کے ناموں کی منظوری دی گئی تھی (فوٹو: سپریم کورٹ)

خیال رہے کہ سوموار کو جوڈیشل کمیشن اجلاس میں حکومتی ووٹوں کی مدد سے چیف جسٹس کی جانب سے نامزد چار میں سے تین ججوں کے ناموں کی منظوری دی گئی تھی۔ جوڈیشل کمیشن نے جن ججز کے ناموں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دی ان میں سے دو پر حکومت کی جانب سے پچھلے اجلاس میں مخالفت کی گئی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ اٹارنی جنرل آفس اور چیف جسٹس کے درمیان مسلسل رابطوں کے بعد حکومت نے چیف جسٹس  کے نامزد کردہ ججز جن کو سنیارٹی کے اصولوں کے برعکس نامزد کیا گیا ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ سمیت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کی سپریم کورٹ تعیناتی کی سفارش کی تھی۔

شیئر: