انہوں نے کہا کہ دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اور پھر فوڈ بینک سے خوراک لینے کا فیصلہ کیا۔
مائیکل کاکس جنہوں نے حالیہ بحران سے قبل کبھی اپنے لیے کسی سے مدد نہیں لی تھی کہتے ہیں کہ ’میرے پاس رقم نہیں تھی، اس لیے فیصلہ کیا کہ یہاں چلتا ہوں۔‘
مشرقی لندن کے شہر ہیکنی میں پیر کو فوڈ بینک کے باہر کوپن ہاتھوں میں پکڑے سینکڑوں افراد اپنی باری کے انتظار میں کھڑے تھے۔
یہ فوڈ بینکس ضرورت مند شہریوں کو خوراک کی ایک ٹوکری فراہم کرتے ہیں جس میں تین دن کے لیے کھانے پینے کی اشیا ہوتی ہیں۔
ہر ضرورت مند کو اس کے خاندان کے لیے درکار اشیا دی جاتی ہیں اور اس کے لیے فنڈز شہری تنظمیں عطیات سے جمع کرتی ہیں۔
برطانیہ میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔
ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک پہنچی جو جی سیون ملکوں میں سب سے زیادہ ہے جس سے پہلے سے ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان شہریوں پر مزید بوجھ بڑھا۔
فوڈ بینک کے سپروائزر جوہن اکلنڈ نے بتایا کہ ’اب جبکہ روزمرہ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، لوگ خوراک خریدنے اور اپنے بلز ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اُن کو کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہم یہ رجحان بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘
سیدونی فلورے فیومبا نامی ایک نرس جو حکومت سے امداد رقم وصول کرتی ہیں نے بتایا کہ وہ اپنے تین بچوں کی خوراک اور گھر میں ہیٹر چلانے کے اخراجات برداشت نہیں کر پا رہیں۔
’زندگی اب بہت مشکل ہو گئی ہے۔ میری فیملی حکومتی امداد پر ہے مگر اب یہ رقم صرف میری ذات کے لیے بھی ناکافی ہے کیونکہ مہنگائی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔‘
سیدونی فلورے نے کہا کہ ’اب میں نے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے فوڈ بینک کو آخری آپشن کے طور پر لیا ہے۔‘