اہل دانش چیختے رہے کہ معاشرہ ایسی بند گلی کی طرف جا رہا ہے جہاں نہ صرف عدم اعتماد کی فضا جنم لے رہی بلکہ معاشرہ روادری، وضع داری،برداشت اور مکالمے سے محرم ہو رہا ہے
***محمد مبشر انوار***
پاکستانی سیاست کے مختلف ادوار پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ کسی بھی دور میں ملکی سالمیت کو مد نظر نہیں رکھا گیا بلکہ ہر حکمران کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح بھی اس کے اقتدار کو دوام حاصل رہے ماسوائے 70 ء کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملکی ترقی و سالمیت کے لئے نئے معیار ترتیب دئیے لیکن بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو بھی 70ء کے انتخابات میں ’’ادھر ہم ،اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگا کر ہوس اقتدار کا اظہار کر بیٹھے۔ اس نعرے کا پس منظر بھی عجیب ہے اور بد قسمتی سے بھٹو مخالفین نے مرحوم عباس اطہر کی اس لیڈ سٹوری کو اپنی مرضی اور مقصد کے مطابق عوام الناس کے سامنے ایسے رکھا کہ بھٹو کا یہ بیان اپنے موقع محل سے مکمل طور پر ہٹ گیا اور آج تک پیپلز پارٹی کے مخالفین اس نعرے کو بھٹو کی ہوس اقتدار سے ہی منسوب کرتے ہیں لیکن تاریخ کا دھارا اپنی سمت اور ترجیحات کا تعین کر کے رہتا ہے اور کبھی نہ کبھی یہ تاریخی دھاندلی بھی درست ہو ہی جائے گی۔ علاوہ ازیں مشرقی پاکستان کے حوالے سے بیج ایوب دور میں ہی بو دیا گیا تھاجس کا نتیجہ اپنی تمام تر نحوست کے ساتھ 1971ء میں رو پذیر ہوا،ایک عظیم جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اسلامی ریاست دو ٹکڑوں میں بٹی اور اندرا گاندھی کو نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبونے کا اعزاز حاصل ہوا۔تحریک نظام مصطفیٰ بپا کرنے والوں نے صرف ایک آمر کی راہ ہی ہموار کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مغرب کی آنکھ میں کھٹکنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے کی قیمت ڈالروں میں وصول کی۔
جنرل ضیاء نے دوام اقتدار کے لئے کیا کچھ نہیں کیا؟کس کس طرح اسلام کا نام نہیں بیچا،کون نہیں جانتا کہ فقط اقتدار کے دوام کی خاطر روس سے پنگا لینا،پرائی آگ کو اپنے گھر میں دعوت دینا،اسلام کی خدمت کے نام پر کیسے کیسے مذہبی انتہا پسندوں کی پشتیبانی کرنا،اپنے قریبی رفقاء کو نوازنا،ملکی سیاست میں وفاق کے عنصر کی بیخ کنی کرنااور سیاسی نرسریوں (کالجز اور یونیورسٹیوں میں)من پسند اور ہم آہنگ سیاسی نظریات والی جماعتوں کو کھل کھیلنے کی اجازت کے علاوہ ان نرسریوں کو مکمل طور پر بیک جنبش قلم سیاسی سرگرمیوں سے روک دینے سے کس کی خدمت کی گئی؟؟جبکہ اس پابندی کے دوران بھی ’’فاشسٹ‘‘ قسم کی طلباء یونینز حکومتی سر پرستی میں تعلیمی اداروں میں بزور شمشیر اپنی طاقت کے نہ صرف مظاہرے کرتی رہی بلکہ رواداری، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفے کی بر سر عام نفی بھی کرتی رہی۔
اس وقت بھی اہل دانش چیختے رہے کہ معاشرہ ایسی بند گلی کی طرف جا رہا ہے جہاں نہ صرف عدم اعتماد کی فضا جنم لے رہی بلکہ معاشرہ روادری، وضع داری،برداشت اور مکالمے سے محرم ہو رہا ہے جس کا منطقی نتیجہ ایک پر تشدد معاشرہ اور لاقانونیت ہی ہو گا مگر افسوس اس وقت حکمرانوں کو ایسی باتیں زہر لگتی اور ایک آنکھ نہ بھاتی،ایسی کسی تحریر کا انجام سینسر کی قینچی رہا، عوام کو حقائق سے کبھی آشنا نہ ہونے دیا گیا۔مطمع نظر فقط اور فقط صرف دوام اقتدار رہا یا ایک وفاقی سیاسی جماعت کی مخالفت،حیرت ہوتی ہے کہ ’’ریفراڈ‘‘ میں بھی اسلام کا نام انتہائی بے دردی،بے شرمی اور ڈھٹائی سے استعمال کیا جاتا ہے مگر کاسہ لیس ہیں کہ کبھی اس کو ہوس اقتدار نہیں کہا بلکہ ہمیشہ ’’اسلامی خدمت اور جذبہ اسلامی‘‘سے تعبیر کیا گیا بعینہ
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی ۔
۔وہ تیرگی جو میرے نامہ اعمال میں تھی‘‘
دوسری طرف سول حکومتیں ہیں، جن کا مقصد مروجہ اصولوں کے مطابق حصول اقتدار ہے لیکن اس اقتدار میں بنیادی عنصر عوامی فلاح و بہبود ہوتاہے جو بد قسمتی نہ تو پاکستان اور نہ ہی پاکستانیوں کا نصیب ٹھہرا بلکہ اس کی آڑ میں عوامی حکومتوں اور اس کے نمائندوں نے کھلے عام ریاستی وسائل کی بندر بانٹ کی اور اندھے کی مانند شیرینی کو بار بار اپنوں میں بانٹنے کی ریت کو قائم و دائم رکھا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں پارلیمنٹ کے فلور پر اراکین اسمبلی کی بولیاں لگی اور ایک جماعت ظہور پذیر ہوئی ،ایک ایسے وقت میں جب آمر کا طوطی بولتا تھا لیکن ایک مرنجاں مرنج سیاسی کارکن نے وزیراعظم بنتے ہی پہلا سوال مارشل لاء اٹھانے کا کیا،جس نے تمام سیاسی قوتوں کو بلاامتیاز سیاسی سر گرمیاں جاری رکھنے کی نوید سنائی،اہم قومی معاملات پر گول میز کانفرنس بلائی،آمر کے ہوتے ہوئے بھی ایک بھر پور سیاستدان کا ثبوت دیا اور عوامی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سر بلندی کی خاطر کام کیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 90کی دہائی کی سیاست اس حوالے سے بدنام ترین سیاست ٹھہری کہ اس کے اثرات آج تک معاشرے میں موجود ہیں،90کی دہائی میں معروف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے جوتم پیزار رہی ،ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک تک قرار دیتی رہی،کرپشن کی بنیاد پر سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف غلط مقدمات بنواتے رہے،سیاست میں سادگی کی بجائے پیسے کو فروغ دیا گیا،سیاست کو عبادت کی بجائے ’’تجارت‘‘ بنا دیا گیا۔
تجوریاں بھرنے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ تجوریوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اپنے پرائے،دوست دشمن تک کی تمیز بھول گئی۔ حکمران ٹولے کو تاریخ کا یہ سبق بھی یادنہیں رہا کہ ہندوستان میں سکھ قوم کے سرمایہ داروں نے جو غلطی 1947ء میں قائد اعظم کی تجویز کو رد کر کے کی تھی،اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ سکھ قوم کا کوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہی ان کے سرمایہ دار آج اس حیثیت میں ہیں کہ وہ اپنی غلطی کا مداوا کر سکیں ،کوئی وقت جاتا ہے کہ ہند توا کے پیروکار سکھوں کو بھی جبراً ہندو مت میں شامل کرکے ان کی شناخت تک ان سے چھین لیں گے اور بعینہ یہی لچھن ہماری آج کی اشرافیہ/حکمران ٹولے کے ہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں نظریات کی کوئی فکر ہی نہیں،ان کا بس چلے تو وہ پاکستان کو اپنے کاروبار کے عوض ہندوستان کے حوالے کر دیں۔
مقتدر حلقوں سے متعلق کچھ بھی کہنے سے پہلے بڑے بڑوں کے پر جلتے رہے ہیں اور آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کہ وہ جو ہمیشہ پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی کا دعویٰ کرتے ہیں،ماورائے آئین کوئی بھی کارنامہ سرانجام دینے میں انہیں کوئی مشکل یا تردد درپیش نہیں ہو تا، مخصوص ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کے اپنے تحفظات ہوتے ہیں بلکہ درون خانہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ ان مخصوص ممالک سے متعلق خارجہ پالیسی کی زمام انہی کے ہاتھ میں ہے۔ دفاع سے متعلق تمام امور ان کے زیر اثر ہیں جہاں سول حکومتوں کی رسائی تک نہیں ہوتی وہ بھی ’’مذاق جمہوریت‘‘ کے بعد پس پردہ بیٹھے ہیں۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے معروف صحافی ہارون الرشید نے خبر دی ہے کہ وہ موجودہ حالات میں،جب عدالت عظمیٰ اپنی تاریخ کے اہم ترین مقدمے کی سماعت کر رہی ہے اور اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے فوج کو اہم انتظامی امور میں شامل کرنا چاہتی ہے، فوج کو الگ رکھنے کے لئے عدالت کو خط لکھنے والے ہیں،ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہ ہیں کہ آرمی چیف عدالت عظمیٰ کی مدد سے انکاری ہیں؟پاکستانی فوج دفاع پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور ایک ایسے اہم موقع پر جب پاکستان میں قانون کی بالا دستی ہونے جا رہی ہو،پاک فوج کے الگ رہنے سے پاکستان لوٹنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی یا حوصلہ افزائی؟اس کا جواب یقینی طور پر پاک فوج کے نمائندے ہی دیں گے لیکن پاکستان کی اس تاریخ میں حقیقت یہی ہے کہ اکثریتی حکمرانوں نے (بلا امتیاز سول و آمر) فقط اپنے پاؤ گوشت کی خاطر اس ملک کو ذبح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔