Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوہے اور شیر کی دوستی ،کھپٹ کہانی کا نیا ورژن

شیر نے وہے سے کہا کہ وہ تمہارے پڑ دادا تھے جن کو میرے پڑدادا نے چھوڑ ا تھا، فیملی ٹرمز کا مجھے خیال کرنا چاہئے
- - - - - - - 
مسز زاہدہ قمر۔جدہ
- - - - -  - - -
آج ہم آپ کے لئے ایک اور پرانی، کھپٹ بلکہ کھڑوس کہانی کو نئے قالب میں ڈھال کرپیش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ ہم اپنے قلم کے جوہر دکھا ئیں، آپ کو پرانی کہانی کی چند جھلکیاں فلیش بیک کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ ٭چوہے کی شرارت: شیر کے اوپر اچھل کود، شیر کی ناراضی اور چوہے کو پکڑ لینا ۔ لقمہ بنانے کا ارادہ، چوہے کی التجا ، شیر کا چوہے کو چھوڑ دینا، شکاری کے ہاتھوں شیر کا قیدہونا، چوہے کا دانتوں سے جال کاٹ کر شیر کو آزاد کرانا اور شیر کا شکریہ ادا کرنا۔ نتیجہ: احسان کا بدلہ، احسان۔ اب سنئے : آج کل کا ذکر ہے کہ مذکورہ بالا کہانی والے چوہے کا پڑ پوتا ،امتحانات کی مصروفیات سے فارغ ہوکر اپنی تھکن اُتار رہا تھا. چوہے نے امتحان نہیں دیا تھا۔ وہ اس کمرے میں جا کر روزانہ طلبہ کے امتحانی پرچے کُترتا تھا جہاں وطن عزیزکے طلبہ و طالبات کے امتحانی پرچے پھینک دیئے جاتے ہیں۔
پڑ پوتا چوہا تھکن اُتار رہا تھا کہ اُس کا کزن آ گیا۔ اس نے اپنے کزن کو سیر کرانے کی دعوت دی تو کزن نے اپنی مصروفیت کا رونا رویااور کہا کہ ’’یار تمہیں کھیلنے کی پڑی ہے ،میں اور میرا چوہا اسٹاف مارے تھکن کے مرنے کے قریب ہو چکے ہیں۔ سارا سال ہمارا کام ختم نہیں ہوتا ہم صرف اچھے کھانے کے لالچ میں خود کو ہلکان کر رہے ہیں ۔‘‘ پڑپوتا چوہا حیران ہو گیا ۔جب وجہ تسمیہ دریافت کی تو انکشاف ہوا کہ اس کا کزن ’’عوامی شکایات‘‘کے دفتر میں کل وقتی ملازم ہے حالانکہ اچھا بھلا200 چوہا ورکرز کا اسٹاف ہے مگر کام کی زیادتی نے بے چارے کودِق کا مریض بنا دیا ہے بقیہ اسٹاف کا بھی یہی حال ہے۔ یہ چوہا اسٹاف سارا سال صرف اچھے لنچ اور ڈنر کے معاوضے پر اپنی جان پر کھیل رہا ہے۔ یہ اچھا لنچ ،ڈنر اور ریفرشمنٹ وہ بچا ہوا کھانا ہوتا ہے جو کہ عوامی شکایت مرکز کے آدمیوں کے لئے صبح و شام کی میٹنگوں میں اُنہیں فراہم کیا جاتا ہے اور یہ بریانی، کباب، پلائو ، کیک، پیسٹریاں، برگر، بروسٹ وغیرہ اتنی مقدار میں بچ جاتے ہیں کہ پورے چوہے اسٹاف کا نہ صرف پیٹ بھر جاتا ہے بلکہ وہ اسے گھر بھی لے جاتے ہیں اور اس کھانے میں کبھی کمی نہیں آتی۔ کزن چوہے نے فخریہ بتایا کہ وہ عوام کی لاکھوں بلکہ کروڑوں شکایات کے خطوط کو بڑی مہارت سے بُرادے میں تبدیل کر چکے ہیں اور انہیں انسانوں کے اسٹاف میں سے کوئی بھی تنگ نہیں کرتا۔ پڑ پوتا چوہا حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گیا اور زناٹے سے اپنے بل میں گُھس گیا۔
وہاں سے دوسرے راستے سے ہوتا ہوا جنگل کی جانب نکل گیا۔ سامنے ہی جنگل کا راجہ، شیر محواستراحت تھا۔ یہ راجہ آج ہی چڑیا گھر سے بھاگ کر آیا تھا چنانچہ دور سے محض ہڈیوں کا ڈھانچہ اور شیر نہیں بلکہ شیر کی باقیات معلوم ہوتا تھا۔ دراصل جب تک لوگوں کو گدھے کے گوشت کی افادیت معلوم نہ تھی ،وہ شیر کے لئے دیئے جانے والے گوشت کی نہاری، کباب و بریانی پکا لیا کرتے تھے ۔آخر کار نوبت یہاںتک جاپہنچی کہ شیر اپنے پنجرے کی گھاس اور پودے تک کھانے لگا۔وہ مرنے سے پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔شیر کمزوری کے باعث غنودگی میں تھا کہ چوہا اس کے پیٹ پر اُچھلنے لگا۔ شیر کی آنکھ مزید کُھل گئی اور اس نے چوہے کو دبوچ لیااور کہا کہ ’’اچھا !تو تم میر ے اوپر اُچھل کود کر رہے تھے ۔تم نے کیا سوچا کہ میں کمزور ہوں تمہیں نہیں پتہ کہ مرا مرا شیر بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے ؟ ’’ارے نہیں ! صرف تم کمزور نہیں بلکہ تمہاری گرامر بھی کمزور ہے کیونکہ سوا لاکھ کا تو مرا ہوا ہاتھی ہوتا ہے۔ ‘‘ پڑ پوتے چوہے نے اس کی اصلاح کی۔ ’’چپ رہو! میری اصلاح کرنے کی ضرورت نہیں، میں کافی دن سے بھوکا ہوں۔ اب تمہارا رول بنا کر کھائوںگا۔ ‘‘ شیر دھاڑا۔ چوہے نے کہا نہیں پلیز! ایسا مت کرنا ، شاید تم نے ٹی وی بہت دیکھا ہے اسی لئے میرا رول بنانے کا سوچ رہے ہو۔ میں بہت چھوٹا ہو ں۔
تم مجھے چھوڑ دو ،شاید میں کسی دن تمہارے کام آسکوں کیونکہ میرے پڑ دادا کو بھی ایک شیر نے چھوڑ دیا تھا اور انہوں نے شیر کی جان بچائی تھی۔ کیا کہا، تمہارے پڑ دادا نے ! اچھا تو وہ تمہارے پڑ دادا تھے جن کو میرے پڑدادا نے چھوڑ ا تھا، زبردست۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے فیملی ٹرمز کا مجھے خیال کرنا چاہئے، شیر مسکرایا۔ ہاں ہاں ! مجھے اس طرح چھوڑ دو جیسے تمہارے پڑدادا نے میرے پڑ دادا کو چھوڑا تھا۔ شاید میں بھی تمہارے کام آجائوں۔ چوہے نے شیر کو سمجھایا۔ ٹھیک ہے ! جائو میں نے تم کو اپنے بزرگوں کی روایت کے پیش نظر چھوڑ دیا۔ پڑ پوتے چوہے اور پڑپوتے شیر میں قول و قرارہوا اور دونوں نے پھر سے اپنا راستہ پکڑا ۔کافی د ن گزر گئے۔ ایک دن چوہے کو جنگل میں غیر معمولی سرگرمیاں نظر آئیں ۔چاروں طرف شکاری گھوم رہے تھے ۔چوہے نے فوراً اپنے دوست شیر کو اس نازک صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے اس کے کچھار کی طرف دوڑلگائی تو سامنے کا نظارہ دیکھ کرحیران رہ گیا۔ شیر جال میں جکڑا ہوا تھا اور شکاری کا نام و نشان نہیں تھا ۔چوہے نے آئو دیکھا نہ تائو،فوراً ہی شیر کو تسلی دے کر جال کاٹنا شروع کر دیا مگر یہ کیا َ؟ جال کٹ ہی نہیں رہا تھا ۔چوہے کے دانتوں سے خون رسنے لگا مگر وہ کوشش کرتا رہا۔آخر کار وہ چٹاخ کی آواز سے ٹوٹ گیا۔ ’’دیکھا دال توت دیا ‘‘چوہے نے پوپلے منہ سے شیر کو مخاطب کیا۔ بے وقوف! جال نہیں ٹوٹا تمہارے دانت ٹوٹ کر گر گئے ہیں۔اسی لئے تم پوپلے ہو گئے ہو‘‘ شیر نے اسے ڈانٹا۔اچانک ایک قہقہہ گونجا۔ سامنے شکاری کھڑا ہنس ہنس کر بے حال ہو رہا تھا۔ ’’اوئے ہوئے ! تویہاں ’’نیکی کا بدلہ‘‘کہانی چل رہی ہے ۔وہ بڑا مزا لے رہا تھا۔ ہاں ! میرے پڑ دادا نے اس چوہے کے پڑ دادا کو چھوڑ دیا تھا اور انہوں نے میرے پڑ دادا کو شکاری کے جال سے آزاد کرو اکر احسان کا بدلہ احسان سے دیاتھا۔ ‘‘ شیر نے شکاری کو بتایا۔
اچھا! تو وہ اس چوہے کے پڑ دادا تھے جنہوں نے میرے پڑ دادا کے جال سے تمہارے پڑ دادا کو آزاد کروایا تھا؟ ہائیں، تو تم اُسی شکاری کے پڑ پوتے ہو ؟ہاں! میں اس شکاری کا پڑ پوتا ہوں۔‘‘’’اتھا!تھلپ اتنا بتائیں تہ دال تیوں نئیں توتا؟ تھپ تچھ تو ویتھا ہے ویتھا میلے پل دادا کے دول میںتھا پھل دال تیوں نئیں توتا؟‘‘ (صرف اتنا بتائو کہ جال کیوں نہیں ٹوٹا سب کچھ تو ویسا ہے جیسا میرے پڑ دادا کے دور میں تھا پھر جال کیوں نہیںٹوٹا)،پڑپوتا چوہا توتلی زبان سے پوچھ رہا تھا ۔ پڑ پوتا شکاری ہنسا کہ ’’میرے دادا نے عام سی ڈوری کا جال بنایا تھا اور میں نے بسنت کے مانجھے کی ڈور کا جال بنایا اس میں تار شامل ہے ۔ اسی لئے تیرے دانت ٹوٹ گئے مگر تار نہیں کٹا ‘‘ یہ کہہ کر شکاری نے شیر کو جال سمیت بندگاڑی میں ڈالا اور چوہے کو پکڑ کر پنجرے میں قید کر لیا۔ ہائیں ہائیں ! مجھے کیوں پکڑ رہے ہو ۔ میں تمہالے کس کام کا ہوں؟‘‘چوہے نے پوپلے منہ سے دُہائی دی۔ تمہارے پڑدادا نے تو میرے پڑ دادا کو چھوڑ دیا تھا؟‘‘ ہاں ٹھیک ہے، انہوں نے تمہارے پڑ دادا کو چھوڑ دیا تھا مگر تم دونوں بڑے جاہل ہو تمہیں نہیں معلوم کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے۔ اس وقت چکن رول اتنا عام نہیں ہوا تھا، شیر چڑیا گھر جائے گا اور تم چکن رول کی دکان کی رونق بنو گے ، سمجھے ؟شکاری نے پڑ پوتے چوہے کو آنکھ ماری اور گنگناتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔

شیئر: