پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات نے کشمیر مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ کے چار پرمٹس تین لاکھ 92 ہزار ڈالر (آٹھ کروڑ 68 لاکھ 86 ہزار میں نیلامی کر دی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے ڈی ایف او ہیڈکوارٹرز صلاح الدین کے مطابق کے پی کے مختلف کنزرونسیز میں چار ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹس کی نیلامی کی گئی۔
صلاح الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ سوموار کے روز ہونے والی نیلامی میں غیر ملکی شکاریوں نے آؤٹ فٹرز کے ذریعے حصہ لیا۔
مزید پڑھیں
-
چترال میں ’کشمیر مارخور‘ کو زخمی کرنے والے سیاح کے خلاف مقدمہNode ID: 578531
محکمہ جنگلی حیات کے عہدیدار کے مطابق تین لائسنس چترال کی تین کنزرونسیز میں دیے گئے جب کہ چوتھا لائسنس ضلع کوہستان کی ایک کنزرونسی میں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چترال کی دو اور کوہستان کی ایک ٹرافی کے لیے ایک لاکھ ڈالر فی لائسنس کی سب سے زیادہ بولی لگی۔
چترال میں ایک لائسنس تھوشی ون کنزرونسی اور دوسرا تھوشی ٹو کنزرونسی میں دیا گیا جب کہ کوہستان کے ’کے گا‘ کنزرونسی میں تیسرا لائسنس دیا گیا۔
چوتھا لائسنس چترال کی گہریت کنزرونسی میں دیا گیا جس کے لیے سب سے زیادہ بولی 92 ہزار ڈالر کی لگی۔
پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی
خیال رہے گذشتہ مہینے 28 اکتوبر کو گلگت بلتستان میں استور مارخور کے شکار کے سب کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی لگی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36511/2022/markhor-in-chitral.jpg)
مہران سفاری نامی آؤٹ فٹر کمپنی نے لائسنس کی بولی ایک لاکھ 65 ہزار ڈالر میں جیت لی تھی۔
کنزرویٹر وائلڈ لائف گلگت بلتستان اجلال حسین نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی مارخور ہٹنگ ٹرافی کا لائسنس ضلع استور کے بونجی کنزرونسی میں جاری کیا گیا۔
اجلال حسین نے بتایا کہ ’استور کی کنزروینسی جی بی میں معدومیت کے خطرے کا شکار مارخور کا گڑھ ہے۔‘
خیال رہے اس سے قبل مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی کی سب سے بڑی رقم ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر تھی۔
گزشتہ سال خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر چترال میں ایک امریکی شہری نے ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر کے عوض پاکستان کے قومی جانور مارخور کا شکار کیا تھا۔
ٹرافی ہنٹنگ کا لائسنس جیتنے والے شکاری کب تک شکار کر سکیں گے؟
ڈی ایف او والڈ لائف ہیڈکوارٹرز صلاح الدین کے مطابق مارخور کے شکار کا سیزن دسمبر سے مارچ تک ہوتا ہے۔ اور اس دوران پرمٹ حاصل کرنے والے شکاری مارخور کا شکار کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چترال میں معدومیت کا شکار مارخور کی آبادی مینیجڈ کنزرویشن اور محکمہ جنگلی حیات اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی کوششوں سے پانچ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
ان کے مطابق کوہستان کے کے گا کنزرونسی میں بھی مارخود کی بڑی تعداد موجود ہے۔
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختوانخوا کے ایک سابق ضلعی آفیسر امتیاز حسین نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹس اوپن نیلامی کے ذریعے دیے جاتے ہیں جو ہرسال نومبر کے مہینے میں کی جاتی ہے۔
چونکہ ٹرافی کی نیلامی ڈالر میں ہوتی ہے اس لیے عموماً اس (مارخور) کے پرمٹ کو غیر ملکی شکاری ہی حاصل کرتے ہیں۔
امتیاز حسین کے مطابق نیلامی میں ٹرافی ہنٹ آؤٹفٹرز حصہ لیتے ہیں جو کہ ایک طرح سے ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ یہ غیرملکی شکاریوں کو مارخور کے شکار کے لیے خدمات اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36511/2022/5a94c09bd3065.jpg)
غیر ملکی شکاری ان آؤٹ فٹرز کی مدد سے شکار کے لیے ٹرافی کی نیلامی میں حصہ لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو ٹرافی دی جاتی ہے۔
ان کے مطابق اگر شکاری پہلے سال ٹرافی ہنٹنگ کسی بھی وجہ سے نہیں کر سکے تو وہ اگلے سال اسی پرمٹ پر شکار کر سکتا ہے۔ لیکن دو سال کے بعد پرمٹ ایکسپائر ہوجاتا ہے۔
امتیاز حسین نے بتایا کہ اگر ٹرافی ہنٹنگ کے دوران شکاری کا فائر مس ہو گیا اور مارخور بھاگ گیا تو بھی پرمٹ قابل استعمال رہتا ہے۔
’لیکن اگر شکاری کی فائرنگ سے مارخور زخمی ہو گیا مگر ہاتھ نہیں آیا تو بھی یہ شکار تصور ہوگا اور شکاری کو مزید شکار کی اجازت نہیں ہوگی۔‘
امتیاز حسین کے مطابق قانون کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن اپریل تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ بریڈنگ پیریڈ شروع ہوتا ہے اس لیے شکار کی اجازت نہیں ہوتی۔
پاکستان سالانہ مارخور کے شکار کے کتنے لائسنس جاری کرتا ہے؟
خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، گلگت بلتستان، پاکستان کے زيرِانتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہيں۔
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے 12 لائسنسز جاری کیے جاتے ہیں۔
28 اکتوبر کو گلگت میں ہونے والی بولی میں رواں سیزن کے لیے کُل چار ٹرافیوں کی نیلامی کی گئی تھی جن میں استور کی کنزروینسی میں نیلام ہونے والی ٹرافی کے علاوہ مزید تین ٹرافیاں بھی شامل ہیں۔
اجلال حسین نے بتایا تھا کہ گو کہ استور مارخور کا گڑھ ہے لیکن اس دفعہ روٹیشن پالیسی کے تحت دیگر ٹرافیاں گلگت ضلع کی تین محتلف کنزر وینسیز میں دی گئیں۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36511/2022/capture.jpg)