مارخور کا شکار، گلگت بلتستان میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی
ہفتہ 29 اکتوبر 2022 13:08
اسرار احمد -اردو نیوز، اسلام آباد
جمعے کو گلگت میں ہونے والی بولی میں چار ٹرافیوں کی نیلامی کی گئی (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
گلگت بلتستان میں استور مارخور کے شکار کے لیے ایک لاکھ 65 ہزار ڈالر کی بولی لگائی گئی ہے۔
مہران سفاری نامی کمپنی کی جانب سے دی گئی بولی پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی ہے۔
کنزرویٹر وائلڈ لائف گلگت بلتستان اجلال حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی مارخور ہٹنگ ٹرافی کا لائسنس ضلع استور کے بونجی کنزرونسی میں جاری کیا گیا ہے۔
اجلال حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’استور کی کنزروینسی جی بی میں معدومیت کے خطرے کا شکار مارخور کا گڑھ ہے۔‘
خیال رہے اس سے قبل مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی کی سب سے بڑی رقم ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر تھی۔
گزشتہ سال خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر چترال میں ایک امریکی شہری نے ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر کے عوض پاکستان کے قومی جانور مارخور کا شکار کیا تھا۔
یہ شکار برائن کنسل ہارلن نامی امریکی نے لوئر چترال کی تھوشی مارخور کنزرونسی میں کیا تھا، جنہوں نے یہ ٹرافی نومبر 2020 میں ہونے والی نیلامی میں جیتی تھی۔
اجلال حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ جمعے کو گلگت میں ہونے والی بولی میں کُل چار ٹرافیوں کی نیلامی کی گئی، جن میں استور کی کنزروینسی میں نیلام ہونے والی ٹرافی کے علاوہ مزید تین ٹرافیاں بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گو کہ استور مارخور کا گڑھ ہے لیکن اس دفعہ روٹیشن پالیسی کے تحت دیگر ٹرافیاں گلگت ضلع کی تین محتلف کنزر وینسیز میں دی گئیں۔
اجلال حسین کے مطابق دو ٹرافیز کی نیلامی ایک لاکھ تیس ہزار فی ٹرافی کے عوض کی گئی تاہم چوتھی ٹرافی کی سب سے زیادہ بولی ایک لاکھ 12 ہزار کی لگی۔
بولی جیتنے والے شکاریوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی رقم دے کر ٹرافی جیتنے والے غیرملکی ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ شکاری کمپنیوں (اوٹ فٹرز) کے ذریعے بولی لگاتے ہیں اس لیے ان کا پتہ پراسیس مکمل ہونے کے بعد ہی چلتا ہے۔ یہ معاملہ پراسیسنگ کے لیے وفاقی حکومت کے پاس جائے گا وہاں سے دوبارہ محکمہ وائلڈ لائف کے پاس آئے گا تو پتہ چلے گا کہ بولی جیتنے والے شکار یوں کا تعلق کن ممالک سے ہیں۔
پاکستان سالانہ مارخور کے شکار کے کتنے لائسنس جاری کرتا ہے؟
خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، گلگت بلتستان، پاکستان کے زيرِانتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہيں۔
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے 12 لائسنسز جاری کیے جاتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات چترال کے سابق ضلعی افسر امتیاز حسین کا کہنا ہے کہ شکار کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کی پیمائش کرتے ہیں جسے شکاری کے حوالے کیا جاتا ہے۔ شکاری سینگ کو بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ان کے مطابق عموماً شکاریوں کی دلچسپی مارخور کے گوشت میں نہیں ہوتی۔
ٹرافی ہنٹنگ کیوں کی جاتی ہے؟
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات کشمیر مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکنے اور ان کی نسل کو محفوظ بنانے کے لیے کی گئی تھی۔
وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ چترال کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ بنیادی طور پر ٹرافی ہنٹنگ کا مقصد لوکل کمیونٹی کی جانب سے مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔
ان کے مطابق پہلے مقامی کمیونٹی مارخور کا غیرقانونی طریقے سے بے دریغ شکار کرتی تھی جس کی بنیادی وجہ غربت اور آگاہی کی کمی تھی۔ تاہم کنزرویشن اور ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات کے بعد غیرقانونی شکار میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مقامی تنظیم کے ذریعے یہ رقم صحت، صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
مذکورہ افسر نے ٹرافی ہنٹ کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مارخور کی جو نسل بوڑھی ہو جاتی ہے تو ان کی بریڈنگ کے نتیجے میں جو جانور پیدا ہوتے ہیں وہ جینیاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔
’اس لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹرافی ہنٹ میں بڑی عمر کے جانوروں کا شکار کرایا جائے تاکہ بوڑھے جانور ختم بھی ہوں اور ان کے بدلے میں مقامی کمیونٹی کو سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم بھی میسر ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ چونکہ ٹرافی ہنٹنگ کی نیلامی ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا سبب بھی بنتا ہے۔
ٹرافی ہنٹنگ کب اور کیسے شروع کی گئی اس کا کوئی فائدہ بھی ہو رہا ہے؟
محکمہ جنگلات کے سابق ضلعی افسر امتیاز حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات 1999 سے ہوئی۔ 1997 میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ سپیشیز سے متعلق زمبابوے میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے کے لیے ہنٹنگ ٹرافی دینے کی اجازت دی گئی۔
امتیاز حسین نے بتایا کہ ابتدا میں پاکستان کو سال میں چھ ٹرافیوں کی اجازت دی گئی جسے بعد میں بڑھا کر 12 کر دیا گیا۔
امتیاز حسین نے کہا کہ ’ٹرافی ہنٹنگ اور کمیونٹی منیجڈ کنزرویشن کی بدولت چترال میں کشمیر مارخور کی تعداد جو 1999 میں چند سو تھی اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔‘
وائلڈ لائف کے ایک حاضر سروس افسر کے مطابق کشمیر مارخور کی تعداد جو چند سو رہ گئی تھی کہ اب بڑھ کر چار ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ ’اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کنزرویشن اور ٹرافی ہنٹنگ کے کتنے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔‘
’ٹرافی ہنٹنگ کی وجہ سے مقامی لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے اس لیے اب مارخور کی سب سے زیادہ حفاظت مقامی لوگ ہی کرتے ہیں۔‘
ٹرافی ہنٹنگ کا پرمٹ کسے اور کیسے جاری کیا جاتا ہے؟
امتیاز حسین کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹس اوپن نیلامی کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ یہ نیلامی ہرسال نومبر کے مہینے میں کی جاتی ہے۔
چونکہ ٹرافی کی نیلامی ڈالر میں ہوتی ہے اس لیے عموماً اس (مارخور) کے پرمٹ کو غیر ملکی شکاری ہی حاصل کرتے ہیں۔
امتیاز حسین کے مطابق نیلامی میں ٹرافی ہنٹ آؤٹفٹرز حصہ لیتے ہیں جو کہ ایک طرح سے ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ یہ غیرملکی شکاریوں کو مارخور کے شکار کے لیے خدمات اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
غیر ملکی شکاری ان آؤٹ فٹرز کی مدد سے شکار کے لیے ٹرافی کی نیلامی میں حصہ لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو ٹرافی دی جاتی ہے۔
ان کے مطابق اگر شکاری پہلے سال ٹرافی ہنٹنگ کسی بھی وجہ سے نہیں کر سکے تو وہ اگلے سال اسی پرمٹ پر شکار کر سکتا ہے۔ لیکن دو سال کے بعد پرمٹ ایکسپائر ہوجاتا ہے۔
امتیاز حسین نے بتایا کہ اگر ٹرافی ہنٹنگ کے دوران شکاری کا فائر مس ہو گیا اور مارخور بھاگ گیا تو بھی پرمٹ قابل استعمال رہتا ہے۔
’لیکن اگر شکاری کی فائرنگ سے مارخور زخمی ہو گیا مگر ہاتھ نہیں آیا تو بھی یہ شکار تصور ہوگا اور شکاری کو مزید شکار کی اجازت نہیں ہوگی۔‘
ان کے مطابق ادارے اور شکاری کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑے مارخور کا شکار کیا جائے۔
امتیاز حسین کے مطابق قانون کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن 15 نومبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ بریڈنگ پیریڈ شروع ہوتا ہے اس لیے شکار کی اجازت نہیں ہوتی۔