’میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ میں اپنا ملک، اپنی زمین چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی دوسرے ملک روانہ ہوں۔ میرے سارے خواب اور میری 20 سال کی محنت اپنے ملک میں تھی اور اپنے ملک کے لیے تھی۔ لیکن اب میں کبھی بھی واپس افغانستان نہیں جانا چاہتی۔‘
یہ کہنا ہے افغانستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی ترینا راشدی کا جو ان دنوں پاکستان میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ محدود ویزہ ہونے، اگلے کسی ملک کا ویزہ نہ لگنے اور ایک سال سے مسلسل بے رزگاری نے ان کے لیے کئی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’خواتین کے ساتھ ظالمانہ سلوک‘، امریکہ کی طالبان پر نئی پابندیاںNode ID: 708371
-
طالبان سے مذاکرات کے لیے تیسرے ملک کی ضرورت نہیں: امریکہNode ID: 711151
ترینا راشدی اکیلی افغان صحافی نہیں ہیں بلکہ افغان صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے پروگرام مینجر امجد قمر کے مطابق طالبان کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد جو افغان صحافی پاکستان آئے ان میں سے 250 سے 300 صحافی اب بھی پاکستان میں موجود ہیں جن میں اکثریت کے ویزے یا تو ختم ہو چکے ہیں یا پھر ان کے پاس سرے سے ویزہ موجود ہی نہیں اور وہ عارضی دستاویزات پر پاکستان پہنچے تھے۔
ان میں سے اکثریت اسلام آباد میں جبکہ پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ سب گذشتہ ایک سال سے اپنے بنیادی روزگار سے بھی محروم ہیں اور شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ان کو عالمی اداروں کی جانب سے امداد اور دیگر ملکوں کے ویزوں کے حصول میں بھی مشکلات ہیں جبکہ ان میں اکثر کی جانوں کو خطرات بھی لاحق ہیں۔‘
9 سال تک افغان میڈیا کا حصہ رہنے والی ترینا راشدی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’میرا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ میڈیا کا حصہ بنوں۔ میں نے تعلیم حاصل کی اور میڈیا کا حصہ بنی۔ 20 سال کی محنت کے بعد میں اپنے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن طالبان کی جانب سے قبضے سے پہلے ہی مجھے دھمکیاں مل رہی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو میں چھ مہینے تک جدوجہد کرتی رہی اور بالآخر میں پاکستان کا ویزہ لے لے جہاز کے ذریعے پاکستان پہنچی اور میں نے ہمیشہ کے لیے افغانستان کو خیرآباد کہہ دیا۔‘
’یہ میرے لیے بہت مشکل تھا میں اپنے بہت سے خواب دفنا کر آئی ہوں‘
انھوں نے بتایا کہ ’میرے پاس ایک سال کا ویزہ ہے جس میں سے صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ میری فیملی میرے ساتھ ہے اور میں اپنے طور پر گزارا کر رہی ہوں۔ اس وجہ سے مالی طور پر کمزور ہوچکی ہوں۔ یہ مشکلات میں ذاتی طور پر جھیل رہی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بطور مہاجر کسی ملک میں جینا آسان نہیں ہے۔ میرا ایک سال پوری طرح ضائع ہوگیا ہے لیکن میں پاکستان سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں جاکر نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں بلکہ اپنا پیشہ وارانہ کام صحافت بھی جاری رکھنا چاہتی ہوں عنقریب میں بین الاقوامی میڈیا کا حصہ بننا چاہتی ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ترینا راشدی نے کہا کہ ’افغانستان میں جن حالات کا سامنا کیا اور میرے خاندان کو میری وجہ سے جو کچھ برداشت کرنا پڑا اس کے بعد میں کبھی بھی افغانستان واپس نہیں جانا چاہتی۔‘
ترینا کی طرح محمد رضا پارسا کو بھی طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لینا پڑی۔ ان کا ویزہ ختم ہو چکا ہے اور پاکستان کی وزارت داخلہ نے ان کے ویزہ میں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر توسیع دینے سے انکار کر دیا ہے۔
