Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارتیں نیلام کرنے کی منظوری

بدھ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہوا جس میں پانچ نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ (فوٹو: پاکستان ایمبیسی)
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے زیر استعمال دو عمارتیں نیلام کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا ہے امریکی حکومت نے ان عمارتوں کا سفارتی سٹیٹس ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں ڈالر ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔
بدھ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہوا جس میں پانچ نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
کابینہ کو وزارت خارجہ کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے زیر استعمال دو عمارتیں تھیں جن کا امریکی حکومت نے 2010 میں سفارتی سٹیٹس ختم کر دیا تھا کیونکہ وہ اس علاقے میں موجود ہیں جہاں سفارتی عمارات کو منتقل کرنے کا کہہ دیا گیا تھا۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ان عمارتوں کے حوالے سے بتایا کہ عمارتوں کے حوالے سے بروقت فیصلے نہ کرنے پر 8 لاکھ 19 ہزار ڈالر ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ امریکی ٹیکس حکام نے کہا ہے کہ اگر یہ عمارتیں نیلام نہ کی گئیں تو 13 لاکھ ٹیکس ادا کرنے پڑے گا۔ عمارتوں کی پہلی بولی 45 لاکھ ڈالر آئی اب 65 لاکھ ڈالر آچکی ہے۔ کابینہ نے شفاف طریقے سے ان عمارتوں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔
اس کے علاوہ کابینہ کو بتایا گیا کہ بہارہ کہو بائی پاس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق عمل کیا گیا ہے۔ سردار ایاز صادق کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی نے تمام سٹیک ہولڈرز کا مؤقف سنا۔
کمیٹی میں تمام سٹیک ہولڈرز نے متفقہ سفارشات پر اتفاق کیا جس کے بعد تمام سفارشات کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی۔
کابینہ سے منظور ہونے کے بعد یہ سفارشات اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دی جائیں گی۔

مریم اورنگزیب نے بتایا کہ عمارتوں کے حوالے سے بروقت فیصلے نہ کرنے پر 8 لاکھ 19 ہزار ڈالر ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ (فوٹو: اے پی پی) 

کابینہ کو بتایا گیا کہ پی ٹی وی کے فیفا ورلڈ کپ حقوق سے دستبرداری معاملے کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں۔ فیفا حکام سے نشریاتی حقوق کی واپسی کے حوالے سے ابھی مذاکرات جاری ہیں۔

وزیر اطلاعات کی عمران خان پر تنقید

پریس بریفنگ کے دوران وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بار پھر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنی سیاست بچانے کے لیے قائد اعظم کے فرمان تو مت استعمال کریں۔
’کیا قائداعظم کا یہ فرمان تھا کہ عمران خان آئینی اداروں کو آئین شکنی پر مجبور کریں؟ عمران خان اپنی ’حرکتوں‘ کی قائد اعظم کے اعلیٰ فرامین سے مطابقت کی کوشش نہ کریں۔ عمران خان کو توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ سمیت تمام بدعنوانیوں کا حساب دینا پڑے گا۔

شیئر: